جس زمانے میں ہم بی اے میں پڑھتے تھے (خدا میرے گناہ معاف کرے، زمانے کا حوالہ میں نے ایسے دیا ہے جیسے قبل از مسیح کی کوئی بات ہو)، اُس زمانے میں بی اے سے فراغت اور ایم اے میں داخلے کے درمیان ایک سال کا وقفہ ہوتا تھا، اُن دنوں میں نے روزنامہ نوائے وقت کے لیے اسی عنوان ”ذرا ہٹ کے“ سے کالم لکھنے شروع کیے۔ پہلے آٹھ دس کالم تو نہایت آسانی کے ساتھ ’کھینچ‘ دیے مگر اُس کے بعد کچھ دن تک موڈ نہیں بنا۔ ایک دن گھر پر اشفاق احمد صاحب کا فون آیا، لینڈ لائن کا دور تھا، میں نے فون اٹھایا، وہ بات تو میرے والد صاحب سے کرنا چاہتے تھے مگر میری آواز سنی تو کہنے لگے او بھئی تم آج کل کالم کیوں نہیں لکھ رہے۔ پہلے تو میرا سینہ فخر سے پھول گیا کہ اتنا بڑا لکھاری اور ادیب میرے کالم پڑھتا ہے۔ اُس کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ سر آج کل لکھنے کا کچھ موڈ نہیں بن رہا۔ جواب میں جو بات انہوں نے کی وہ مجھے آج تک یاد ہے اور میں اپنے سمیت ہر لکھاری کو یہ بات بار بار سناتا ہوں۔ انہوں نے کہا ’’یار بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر فی الحال تم موڈ جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے، یہ ہم جیسے سینئر لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔‘‘ یہ بات میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی۔
آج یہ بات دہرانے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ آج بھی میرا لکھنے کا موڈ نہیں تھا لیکن پھر میں نے خود کو سمجھایا کہ نہ لکھنے سے کچھ لکھنا افضل ہے مگر اِس کا یہ مطلب بھی نہیں محض صفحہ ہی کالا کیا جائے، اسی شش و پنج میں ایک موضوع ہاتھ آ ہی گیا جس کے بارے میں کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ بات کرنی چاہیے۔ ہم اکثر عام لوگوں کو اِس بات پر لِتاڑتے ہیں کہ یہ امیر اور کامیاب لوگوں سے حسد کرتے ہیں اور انہیں اپنا رول ماڈل بنانے کی بجائے اُلٹا اُن کی امارت اور کامیابی پر تنقید کرتے ہیں جو کہ صحت مند رُجحان نہیں، دوسری جانب امریکہ اور دیگر ممالک میں ارب پتیوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور اُن کا بزنس ماڈل یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، وہاں لوگ اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح دولت مند بننا چاہتے ہیں نہ کہ یہ دعا کرتے ہیں کہ کسی زلزلے میں اُن کا گھر ہی گِر جائے۔ ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ دو ناکام و نامُراد بندے کہیں سے گزر رہے تھے کہ اُنہیں کسی امیر کبیر آدمی کا بے حد شاندار گھر نظر آیا، پہلے نے حسرت سے کہا دیکھو یار کس قدر عالیشان گھر ہے، دوسرے نے گھر پر اُچٹتی سی نگاہ ڈالی اور جواب دیا ’’ہاں، لیکن اگر کسی دن بم گر گیا تو سارا تباہ ہو جائے گا، بم کے آگے یہ کچھ نہیں ہے۔‘‘ بس، ہمارا عام آدمی بھی کچھ ایسے ہی سوچتا ہے۔ حسد کا جذبہ کسی حد تک قدرتی ہے، ہر انسان میں ہوتا ہے لیکن جس وجہ سے ہمارے ہاں کا عام آدمی کامیاب بندے سے نفرت کرتا ہے اُس کی وجوہات، حسد کے علاوہ بھی کچھ ہیں۔
ایک وجہ عاجزی کا فقدان ہے، عام بندہ بڑے آدمی کو عاجز دیکھنا پسند کرتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں بہت کم بڑے آدمی ایسے ہیں جو حقیقتاٴ مُنکسِرالمِزاج ہیں اور عاجز ہونے کی اداکاری نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں جس بندے کے پاس چار پیسے آتے ہیں وہ سب سے پہلے بازار سے سَریا خریدتا ہے اور اسے اپنی گردن میں فِٹ کرواتا ہے۔ گزشتہ کالم میں یوال نوحا حراری کا ذکر آیا تھا، میں نے یوٹیوب پر اُس کا ایک مکالمہ دیکھا جو ڈینئل کان مین کے ساتھ تھا۔ اِن دونوں دانشوروں کا تعارف اگر لکھنا شروع کروں تو مزید دو کالموں کا پیٹ بھر سکتا ہے مگر ذرا دیکھیے کہ اُس مکالمے میں اِن دونوں نے اپنا تعارف کس عاجزی کے ساتھ کروایا۔ حراری نے کہا کہ ’’میں ایک تاریخ دان ہوں اور یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں‘‘ جبکہ ڈینئل کان مین نے فقط یہ بتایا کہ ’’میں ریٹائرڈ ہوں، بوڑھا نفسیات دان ہوں، میں نے بھی ہیبریو یونیورسٹی سمیت کئی جگہوں پر پڑھایا ہے جیسے کہ پرنسٹن، مگر اب میں کہیں نہیں پڑھاتا، بس یہی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ڈینئل کان مین نوبل انعام یافتہ کئی کتابوں کا مصنف ہے اور حراری کو تو آدھی دنیا جانتی ہے۔ ہمارے پاس اِن دونوں دانشوروں کے پائے کا ایک بھی آدمی نہیں اور دور دور تک نہیں لیکن اپنا تعارف ہم یوں کرواتے ہیں جیسے آئن اسٹائن کو فزکس ہم نے پڑھائی ہو!
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر بڑے لوگ مُنکَسِر المِزاج نہ بھی ہوں تو اُن کی عظمت، امارت یا دانشوری تو اپنی جگہ مُسَلّم رہے گی۔ بالکل رہے گی۔ مگر پھر لوگ اُن سے دور رہیں گے اور معاشرہ اُن سے مستفید نہیں ہوگا۔ یہ بات محض گپ شپ نہیں بلکہ تحقیق سے ثابت شدہ ہے۔ میرے ایک اور پسندیدہ لکھاری ایڈم گرانٹ کے مطابق ’’جس بات کی وجہ سے ہم بڑے آدمیوں اور اپنے شعبے کے ماہرین کو نظرانداز کرتے ہیں وہ اُن کا علم یا دانش نہیں بلکہ اُن کاتکبّر اور نخوت ہے، ثبوت اِس کا یہ ہے کہ سائنس دانوں کو اُس وقت زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے جب وہ اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ کیا بات نہیں جانتے، اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کہاں غلط تھے اور اپنے نظریات کی وقتاٴ فوقتاٴ تجدید کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ حقیقی انکساری سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ اپنی اتھارٹی ثابت کرنے سے۔‘‘ یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کا عام آدمی اپنے سے زیادہ بڑے آدمی سے پرے رہتا ہے، بڑے آدمی کی آپ جو بھی تعریف طے کر دیں، تقریباٴ ہر بڑا آدمی ہی یہاں خود کو اُس وقت تک تیس مار خان سمجھتا ہے جب تک اُس کا پالا اپنے سے بڑے کسی طُرّم خان سے نہ پڑ جائے۔
ویسے کچھ لوگوں کی میرے بارے میں بھی یہی رائے ہے کہ میں مغرور ہوں اور سیدھے منہ بات نہیں کرتا، آج میں یہ وضاحت کر دوں کہ یہ بات درست نہیں، ہاں آپ مجھے مَردم بیزار کہہ سکتے ہیں، میں صرف اپنے قریبی دوستوں میں خوش رہتا ہوں، شکل پر چونکہ ضرورت سے زیادہ سنجیدگی اور سختی ہے اِس لیے اگر نارمل انداز میں بھی لوگوں سے ملوں تو انہیں غصّے میں لگتا ہوں حالانکہ نہ اِس میں میرا کوئی قصور ہے اور نہ اختیار۔ سو، جن احباب نے میرے بارے میں یہ رائے قائم کر رکھی تھی اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ اِس وضاحت کو قبول فرما کر شکریے کا موقع دیں۔ اور اگر انہیں میری بات میں دَم نہ لگے تو پھر مجھے عام آدمی سمجھ کر معاف کردیں کیونکہ میں خود کو بڑا آدمی نہیں سمجھتا۔