• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے ایک نوجوان ارسلان ملک کو شارٹ ٹرم کڈ نیپ کرنے کے بعد اس سے تین لاکھ دس ہزار ڈالر لوٹ لیے گئے یہ رقم پاکستانی نو کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے ، لیکن خبر صرف اتنی نہیں تھی بلکہ اصل خبر یہ تھی کہ ارسلان ملک کو اغوا کرکے تین لاکھ دس ہزار ڈالر لوٹنے والے کوئی معمولی ڈاکو نہیں تھے بلکہ یہ واردات شہریوں کی حفاظت کے لیے مامور پولیس کی جانب سے کی گئی تھی ، یہ خبر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا نے شائع کی جس سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی اورجگ ہنسائی ہوئی ہے ۔کراچی جیسے شہر میں لوٹ مار ، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام سی بات بن چکی ہیں جسے اب کراچی کے شہریوں نے کراچی میں رہنے کی قیمت سمجھ کر قبول کرلیا ہے ، ایک سروے کے مطابق پچاس فیصدسے زائد کراچی کے شہری اپنے ساتھ ہونے والے موبائل چوری سمیت کئی مجرمانہ واقعات کی ایف آئی ار بھی درج کرانے سے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایف آئی ار درج کرانے کے بعد پولیس کی جانب سے ان کی زندگی مزید مشکل ہوسکتی ہے ، گزشتہ دنوں کراچی کے ارسلان ملک کے ساتھ پولیس کے شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ کے واقعے کے بعد برطانیہ میں مقیم ایک دوست نے میرا ارسلان ملک سے رابطہ کرایا جس کے بعد اس نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ کراچی کے علاقے نارتھ کراچی کا رہائشی ہے اور ایک بین الاقوامی ایکسچینج کے ذریعے کرپٹو ٹریڈنگ کاکاروبار کرتا ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں اس نے اس کاروبار سے جو کل رقم جمع کی تھی وہ تین لاکھ دس ہزار ڈالر ہی تھی ، ارسلان ملک کے مطابق وہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بڑا انفلوئنسر ہے جس کے ہزاروں فالوورز بھی ہیں اور نوجوانوں کو کرپٹو ٹریڈنگ کے لیکچرز بھی دیتا ہے ، اپنے ساتھ شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ کے واقعے کے حوالے سے ارسلان ملک نے بتایا کہ اس سے فون پر کسی نامعلوم شخص نے رابطہ کیا جو کرپٹو ٹریڈنگ سیکھنا چاہتا تھا اوراس کے لیے اسے کچھ ڈالر بھی خریدنے تھے ، بات چیت آگے بڑھی ، اس شخص نے ارسلان کو کسی جگہ بلوایا جہاں پہلے سے چار لوگ موجود تھے پھر وہاں اچانک ایک موبائل پہنچی اور ارسلان کو زبردستی اس میں بٹھا لیا اور پھر شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ کا سفر شروع ہوا ، موبائل میں چھ افراد سوار تھے جس میں ایک کرپٹو ٹریڈنگ کا ماہر شخص بھی موجود تھا ، موبائل کو شہر کے سنسان علاقوں میں گھمانے کے بعدارسلان کے سر پر پستول لگا کر اس کا موبائل پاسورڈ کے ذریعے کھلوایا گیا اور پھر اس کے کرپٹو ایکسچینج والٹ سے اس کی تمام جمع پونجی تین لاکھ دس ہزار ڈالر نکلوائی گئی اور اسے اسی سنسان علاقے میں چھوڑ کر مذکورہ پولیس موبائل اور اس میں سوار تمام افراد وہاں سے فرار ہوگئے ، اگلے دن واقعہ میڈیا میں آگیا اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے بھی واقعے کا نوٹس لیکر ڈی ایس پی علی رضا سمیت راجہ عمر خطاب اور کئی اہلکاروں کو معطل اور گرفتار کرلیا ، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تین لاکھ دس ہزار ڈالر میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر بازیاب بھی ہوگئے ہیں لیکن یہ رقم ارسلان کو واپس دینے میں پولیس دلچسپی نہیں لے رہی ، اب صورتحال یہ ہے کہ ارسلان ملک کے پاس وکیل کی فیس کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں ، بہرحال اس واقعے کو سننے کے بعد مجھے چند ماہ قبل کراچی پولیس کے محکمے ایس آئی یو کی جانب سے ایسی ہی ایک شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ کا واقعہ یاد آگیا جو میرے عزیز کے ساتھ پیش آیا تھا جس میں اپنے ہی انفارمر سے جھوٹا الزام لگا کر ایک سرکاری ادارے کے اٹھارہ گریڈ کے افسر کو ان کے گھر سے اٹھا لیا گیا تھا اور پچیس لاکھ روپے لیکر یہ کہہ کر چھوڑا گیا کہ واقعے کے بارے میں کسی کو بتایا تو دوبارہ کسی اور الزام کے تحت اٹھا لیا جائے گا ، یہ واقعہ سندھ پولیس کی اعلیٰ ترین شخصیت کے علم میں بھی لایا گیا تھا لیکن اغوا ہونے والا سرکاری افسر تحریری شکایت دینے سے ڈر گیا اور یوں سندھ پولیس کی اعلیٰ ترین شخصیت چاہنے کے باوجود بھی اپنے افسران کے خلاف کارروائی نہ کرسکی۔ اب ارسلان ملک کی شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ نے پولیس کے پورے نظام پر سوالات اٹھادیئے ہیں ،ادارے میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے شدید نقائص سامنے آرہے ہیں کہ کس طرح پولیس میں چھوٹے چھوٹے گروپ عوام سے لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ کو ان واقعات پر سخت ترین ایکشن لینا ہوگا ورنہ کراچی میں مقیم کاروباری شخصیات اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے ملک چھوڑنے کے آپشن کو اپنانے لگیں گے اور جب اپنے شہری کراچی میں رہنا پسند نہیں کریں گے تو کون غیر ملکی یہاں آکر سرمایہ کاری کرے گا ۔

تازہ ترین