• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی ریاست کیلی فورنیا کا شہر لاس اینجلس خوابوں کا دیس کہلاتا ہے، یہ رنگ و نور کا شہر ہے ،یہ امریکی فلم انڈسٹری کا مرکز تو ہے ہی مگر اس کی متنوع ثقافت کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ یہاں 140ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جو 200سے زائد زبانیں بولتے ہیں مگر انسانیت نے انہیں جوڑ رکھا ہے۔ یہ کوئی قدیم شہر نہیں ہے بلکہ 1781ء میں میکسیکو کے 44آباد کاروں نے لاس اینجلس کی بنیاد رکھی اور غالبا ً1847ء میں یہ شہر امریکہ کا حصہ بنا۔ گزشتہ ہفتے یہاں Palisadesکے علاقے میں آگ بھڑک اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بھرپور کوشش کے باوجود تادم تحریر اس آتشزدگی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس آگ سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ اس قدر زیادہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کی بدترین تباہی و بربادی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہاں جل کر بھسم ہوجانے والی آبادیوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ایٹم بم گرا دیا ہو۔ لگ بھگ 25ہزار دفاتر، گھر اور گاڑیاں نیست و نابود ہو چکی ہیں۔ ایک لاکھ 53ہزار افراد کو یہاں سے بیدخل کردیا گیا ہے اور مزید ایک لاکھ 60ہزار مکینوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں سے انخلا کیلئے تیار رہیں۔ اس آگ سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ 135بلین ڈالر سے 150بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی؟ ابھی اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوسکا البتہ آگ بڑے پیمانے پر پھیل جانے کے باعث تباہی کا سبب کیوں بنی، اس کا جواب ہے موسمیاتی تبدیلیاں۔ کیلیفورنیا میں 2022-23ء کے دوران خوب بارشیں ہوئیں جنکی وجہ سے جھاڑیوںاور گھاس پھونس نے خوب پرورش پائی۔ اس کے بعد اب تک خشک سالی کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے تو یہ خودرو جھاڑیاں سوکھ کر ایندھن کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ لاس اینجلس میں چونکہ بہت تیز ہوائیں چلتی ہیں اسلئے جب کسی وجہ سے آگ لگی تو وہ پھیلتی چلی گئی۔امریکی حکام تو ابھی تک یہ سراغ لگانے میں ناکام ہیں کہ لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی لیکن پاکستان میں اہل ایمان معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ آگ دراصل اللہ کا عذاب ہے ۔اس تباہی و بربادی کے ذریعے پروردگار نے امریکیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپنی ٹیکنالوجی پر بھروسہ نہ کرو ،تم ہرگز سپر پاور نہیں اور میں جب چاہوں تمہیں نیست و نابود کرسکتا ہوں۔بعض صالحین یہ جواز بھی پیش کررہے ہیں کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے ،غزہ کو بمباری کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ،یہ تباہی و بربادی دراصل مکافات عمل ہے اور اب لاس اینجلس کو برباد کردیا گیا ہے۔جشن طرب برپا کرنے والے پاکستانی اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے امریکی اداکا ر جیمز وڈ کی ویڈیو بطور خاص پیش کرتے رہے۔جیمز وڈ امریکی چینل سے بات کرتے ہوئے روپڑے تھے اور کہا تھا کہ ایک دن آپ اپنے سوئمنگ پول میں نہا رہے ہوتے ہیں اور اگلے دن سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔اہل ایمان نے اس کافر کو یاد دلایا کہ تم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت کیا کرتے تھے ،اب روتے کیوں ہو؟اللہ کے عذاب کا مزا چکھو،بیشک اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے۔اگرچہ اس آتشزدگی کے دوران اداکارہ پیرس ہلٹن سمیت فلم انڈسٹری سے وابستہ کئی شخصیات کے محل نما گھر برباد ہوگئے مگر جمع خاطر رکھیئے کہ ابتدائی معلومات کے برعکس جیمز وڈ کا گھر صحیح سلامت ہے۔ Pacific Palisades میں کئی بیش قیمت گھر جل کر خاکستر ہوگئے۔چونکہ سب مکینوں کو یہاں سے نکال دیا گیا تھا اور پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا اس لئے جیمز وڈ نے سمجھا کہ اس کا گھر بھی جل گیا ہوگا مگر اب جب ملبہ ہٹایا گیا تو معلوم ہوا کہ آس پاس کے سب گھر جل جانے کے باوجود جیمز وڈ کا گھر محفوظ رہا۔اس بات کو معجزہ قرار دیا جارہا ہے تو اب اہل ایمان اس معجزے کاکیا جواز پیش کریں گے؟صالحین کا اصرار ہے کہ یہ آگ اللہ کا عذاب بن کر مسلط ہوئی ہے تو مجھ گناہ گار کی کیا مجال اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کروں مگر سوال یہ ہے کہ یہ عذاب براہ راست اسرائیل پر نازل کیوں نہیں ہوا؟اگر فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب کتاب مقصود تھا تو یہ تباہی و بربادی تل ابیب کے حصے میں آتی ۔ممکن ہے اسرائیل کی پشت پناہی کی وجہ سے امریکہ کو سزا دی گئی ہو مگر لاس اینجلس میں عام امریکی شہریوں کے گھر جلانے سے کیا ہوگا؟ہم نماز پڑھنے کے بعد صبح شام دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ امریکہ کی توپوں میںکیڑے پڑ جائیں ،کفار تباہ و برباد ہوجائیں ،امریکہ نیست و نابود ہوجائے ۔اگر یہ دعائیں قبول ہوتیں تو لاس اینجلس میں آگ بھڑکنے کے بجائے پینٹاگان میں دھماکہ ہوتا ،امریکی اسلحہ کے ذخیرے HWADمیںآگ لگتی تو سپر پاور کا غرور خاک میں ملتا اور کفار کو پتہ چلتا کہ عذاب کیا ہوتا ہے۔اور رہی بات ٹیکنالوجی کے لایعنی و بے معنی ہونے کی تو جناب اس بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کے باوجود ابھی تک صرف 16اموات ہوئی ہیں۔کراچی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تھی تو 258 مزدور جل مرے تھے ۔خاکم بدہن اگر یہ آگ وطن عزیز میں لگی ہوتی تو کیا ہوتا ؟کتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی اور کتنے انسان جل کر بھسم ہوگئے ہوتے۔ماضی میں جب کوئی وبا آتی تھی تو شہروں کے شہر قبرستان بن جایا کرتے تھے مگر چند برس قبل کورونا کا عذاب نازل ہوا تو کم وبیش دو سال میں اسے مکمل طور پر کنٹرول کرلیا گیا۔یہ سب ٹیکنالوجی کا اعجاز ہے جسے آپ چاہیں تو عام فہم بنانے کے لئے تدبیر کا نام دے سکتے ہیں۔2015ء میں بھی لکھا تھا عذاب کا منجن بیچنے والوں پر کان نہ دھریں۔

تازہ ترین