• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرسودہ نظام صحیح عوامی نمائندگی اسمبلیوں میں پہنچنے نہیں دیتا،نعیم الحق

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام "نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ"میں گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے کہا کہ فرسودہ نظام صحیح عوامی نمائندگی اسمبلیوں میں پہنچنے نہیں دیتا،ن لیگ کے رہنما عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کا عمل جاری ہے ،پیپلزپارٹی کی رہنما روبینہ خالد نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ کشمیرکے عوام مرکزی حکومت کے ساتھ چلتے ہیں،سنیئرتجزیہ کار امتیاز گل نے کہا کہ دنیا بھر میں ہر مسئلہ بات چیت سے حل ہوتا ہے۔ آزاد جمو کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کو پڑنے والے ووٹوں کے حوالے سے اپنی ٹویٹ کی وضاحت دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماء نعیم الحق کا کہنا تھا کہ ہمارے ، پی پی پی اور مسلم کانفرنس کے جن کی پانچ سیٹیں آئی ہیں ان کے جو ووٹ پڑے ہیں وہ پاکستان مسلم لیگ سے زیادہ ہیں، مسلم لیگ ن کو 42 فیصد ووٹ ملے ہیں اور ان کی سیٹیں 32آئی ہیں ، ہماری پانچ آئی ہیں، 58 فیصد ووٹرز نے مسلم لیگ ن کے خلاف ووٹ دیئے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو نئی حکومت بننے جا رہی ہے وہ نمائندہ حکومت نہیں ہے اور اکثریت کی رائے کو رد کر دیا گیا ہے لیکن اس میں مسلم لیگ ن کا قصور نہیں ہے اس نظام کا ہے جو عرصے سے چلا آرہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء سینیٹر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے حوالے سے مرکز میں حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں شاید مرکز وہاں کنٹرول کرتا ہے اس لئے شایدوہ اس مجبوری کے تحت چلتے ہیں۔ اس دوران گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماء لیفٹیننٹ جنرل (ر)عبد القادر بلوچ کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کی کارروائی ابھی جاری ہے ۔پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے اس میں اگر ہاری ہوئی جماعتوں کے ووٹوں کو اکھٹا کیا جائے توان کی تعداد جیتی ہوئی جماعت کے ووٹوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس پر نعیم حق کا کہنا تھاکہ یہ ایک فرسودہ نظام کی کمزوریاں ہیں جو صحیح معنوں میں عوام کی نمائندگی اسمبلیوں میں نہیں پہنچنے دیتی میں نے اس کی نشاندہی کی ،لیکن حکومت وقت نے اپنے ذرائع استعمال کئے بے شمار لوگوں کو کشمیر کونسل کی رکنیت کی پیشکش کی گئی کہ آپ ہمارے امیدوار کی حمایت کریں ہم آپ کو کشمیر کونسل کی رکنیت دیں گے ۔ اس دوران روبینہ خالد کا کہنا تھاکہ کشمیر کے وزیراعظم کے اختیارات تھوڑے محدود ہیں ، اس سارے سلسلے میں سپریم کونسل سپریم ہے ۔بجٹ وغیرہ سب کشمیر کونسل سے جاتا ہے جس کی سربراہی وزیراعظم پاکستان کرتے ہیں، کشمیر میں نتائج اس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔وزیر اعظم کشمیر کو ایک آئی جی بدلنے کا صوابدیدی اختیار نہیں ہے ۔ بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے عبد القادر بلوچ کا کہنا تھا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹری بنیادی طور پر مرکز سے چلے جاتے ہیں، پینل دیا جاتا ہے اس میں سے انھوں نے انتخاب کرنا ہوتا ہے اور یہ صرف آزاد کشمیر کے لئے نہیں چاروں صوبوں کے لئے ہے۔ اصلاحات پر کام نہ ہونے کے سوال پر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ انتخابی یا دیگر اصلاحات بہت ضروری ہیں لیکن ان کا عمل بہت آہستہ چل رہا ہے ،یہ حزب اختلاف اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور بنیادی طور پریہ کام حکومت کا ہے ۔حزب اختلاف جب کوئی بات کرے حکومت مقابلے پر اترآتی ہے اور جہاں مقابلے کی فضاء ہو وہاں نہ تو اصلاحات کی گنجائش ہوتی ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے شروع ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین