بالآخر حکومت نے پاکستان کیلئے بیرون ملک جگ ہنسائی اور بدنامی کا سبب بننے والے پاکستانیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہےاور حکومت کی جانب سے یو اے ای میں قید 4700سے زائد پاکستانیوں کے پاسپورٹس بلاک کرنے کا اعلان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حالیہ پیشرفت یو اے ای کی جانب سے حکومت پاکستان کو ان افراد کے جرائم کی تفصیلات فراہم کرنے کے بعد سامنے آئی جو وزٹ اور ایمپلائمنٹ ویزے کی آڑ میں یو اے ای میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ واضح ہو کہ یو اے ای کی مختلف جیلوں میں اس وقت 5300 سے زائد پاکستانی قید ہیں جو قتل، منشیات، بھیک مانگنے، فراڈ، دھوکہ دہی، چوری، جنسی ہراسانی اور غیر قانونی طور پر رہائش اختیار کرنے میں ملوث ہیں۔ حکومت نے اس سے قبل سعودی عرب اور یو اے ای کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ان ممالک سے ڈی پورٹ کئے گئے 4 ہزار سے زائد پاکستانی گداگروں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں شامل کئے تھے۔ سعودی عرب اور یو اے ای سے کافی عرصے سے یہ شکایات موصول ہورہی تھیں کہ ان ممالک کی جیلیں پیشہ ور پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں، ان ممالک کے حکام نے پاکستانی حکام کےسامنے یہ معاملہ اٹھایا اور درخواست کی کہ گداگروں کو سعودی عرب اور یو اے ای آنے سے روکا جائے۔ بعد ازاں سعودی عرب اور یو اے ای کی شکایات کی تصدیق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے’ سمندر پار پاکستانی‘ کے اجلاس میں اس وقت ہوئی جب اجلاس میں شریک وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری ذوالفقار حیدر نے اعلیٰ حکام کے سامنے یہ انکشاف کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حدود سے گرفتار کئے گئے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے تھے جو عازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے گئے۔ سیکریٹری اوورسیز کے مطابق سعودی عرب کی پولیس نے 202 بھکاریوں ،جن میں 90خواتین بھی شامل تھیں، کو گرفتار کرکے پاکستان ڈی پورٹ کیا جو عمرے ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔ بعد ازاں حکومت ایکشن میں آئی اور ان ممالک سے ڈی پورٹ کئے گئے بھکاریوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے جبکہ یو اے ای میں قید پاکستانیوں کے پاسپورٹس بلاک کئے گئے لیکن بھارت سمیت عالمی میڈیا پاکستانی بھکاریوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی ان خبروں کو مرچ مسالہ لگاکر پیش کرتا رہا اور مختلف وی لاگز میں تضحیک آمیز تبصرے کئے گئے کہ ’’پاکستان دنیا کو بھکاری (Beggars) ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔‘‘ اس طرح کے تبصرے پاکستان کی تضحیک کا سبب بنے جس سے نہ صرف ملک کی ساکھ مجروح ہوئی بلکہ یہ عمل دنیا بھر میں پاکستان بدنامی کا سبب بنا جسکے باعث یو اے ای حکومت نے پاکستانیوں کے ایمپلائمنٹ اور وزٹ ویزوں پر پابندی عائد کردی تاہم اب ایسی اطلاعات ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے بیورو آف امیگریشن نے نئی شرط عائد کی ہے کہ ہنرمند پاکستانیوں کو یو اے ای میں ملازمت اور ویزے کے حصول کیلئے پولیس کا کریکٹر سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ متحدہ عرب امارات نے مختلف شکایات کی بنا پر پاکستان کے مختلف شہروں کیلئے وزٹ اور ایمپلائمنٹ ویزے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جس سے پاکستانیوں میںبے چینی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے ان شہروں میں ایبٹ آباد، اٹک، باجوڑ، چکوال، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، ہنزہ، قصور، خوشاب، کوٹلی، کوہاٹ، کرم ایجنسی، لاڑکانہ، نوابشاہ، مہمند ایجنسی، مظفر گڑھ، پارا چنار، کوئٹہ، ساہیوال، سرگودھا، شیخوپورہ، اسکردو اور سکھر شامل ہیں۔ اس طرح یو اے ای وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کے کچھ شہروں اور وہاں کے لوگوں کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ ان شہروں کے باشندوں پر پابندی اس لئے بھی عائد کی گئی ہے کہ ان شہروں کے لوگوں نے ماضی میں یو اے ای کے ویزوں کا غلط استعمال اور قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔
یو اے ای میں اس وقت 15 لاکھ اور سعودی عرب میں 26 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار سے وابستہ ہیں جو ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ پاکستانی سعودی عرب سے 7.4 ارب ڈالر اور یو اے ای سے 5.5 ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر بھیجتے ہیں۔ ایسے میں جب دبئی ترقی کے عروج پر ہے، یو اے ای میں بڑے پیمانے میں تعمیراتی کام جاری ہے اور دنیا بھر کی افرادی قوت یو اے ای کا رخ کررہی ہے، پاکستانیوں پر یو اے ای کیلئے ویزوں پر پابندی باعث افسوس ہے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ آخرکار حکومت نے سنجیدہ اقدامات کرتے ہوئے یو اے ای میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پاکستانیوں کے نام ECL میں ڈال کر ان کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا اعلان کیا مگر حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت کے سخت اقدامات کے باوجود اب بھی کچھ پاکستانی اپنی فیملی کی خواتین کے ہمراہ عمرےویزے کی آڑ میں گداگری کی غرض سے سعودی عرب اور یو اے ای جانے کی کوششوں میں ملک کے مختلف ایئر پورٹس پر پکڑے جارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی گداگر پاکستان کا نام داغدار نہ کرسکے۔ افسوس کہ ہم ہر مسائل کا سدباب نقصان ہونے کے بعد کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کئے گئے حالیہ اقدامات اگر پہلے ہی کرلئے جاتے تو پاکستان کو اس قدر جگ ہنسائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔