• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیارے پاکستان میں ہر دوسرے دور میں غداری کی سندیں اور فتوے جاری کرنے کی چلتی پھرتی فیکٹریاں گویا ایک قومی صنعت کا درجہ حاصل کر چکی ہیں بلکہ ایسا بھی ہوا ہے ایک دور کے ہیرو کی سند جاری کئے جانے والے کو دوسرے دور میں غدار کا رتبہ دے دیا گیا ہے۔ غداری کی سندیں جاری کرنا اور ہیرو ورشپ ایک قومی بیماری کی ایک بڑی طویل تاریخ رکھتی ہے۔ اس ملک پر ایسے بھی وقت آئے جب ساری کی ساری شہری آبادی مشکوک اور غدار قرار دے دی گئی۔ صوبے اور صوبوں کے لوگ تک غدار ٹھہرائے۔ کل بنگالی غدار تھے تو آج بلوچ۔ اس سے پہلے اردو بولنے والے اور سندھی تو کبھی پختون۔
بلکہ بعض خفیہ ایجنسیوں کے غداری کے ٹھپے جاری کرنے کے کارخانے اور کاروبار ٹنڈو آدم کے دو نمبر مال کے کارخانوں کے کاروبار کی طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے۔ کبھی کسی کو ہیرو تو کسی کو غدار قرار دینے کی رسم و سیاسی ثقافت اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی عمر۔ غداری کی سندیں عطا کئے جانے کا سلسلہ سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان کے لوگوں اور رہنمائوں سے شروع کیا گیا تھا جو دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش ابھر کر سامنے آنے تک جاری رہا بلکہ کچھ سال بعد تک بھی جاری رہا۔
جی ہاں وہی مشرقی بنگال جن کے مسلم لیگی زعماء و رہنمائوں نے سب سے پہلے پاکستان کی تحریک کی داغ بیل ڈالی تھی اسی مشرقی بنگال کے شیر کہلانے والے مولوی فضل حق کو پھر غدار بھی قرار دے دیا گیا۔ پاکستان کیلئے لڑنے والے حسین شہید سہروردی کو کبھی وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھایا اور پھر دوسری سانس میں انہیں غدار قرار دے ڈالا گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی تو بات ہی چھوڑئیے، یہ بھی چھوڑئیے کہ اس جوشیلے نوجوان اور کبھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف ایسٹ بنگال کے لیڈر نے جس پاکستان کی تحریک میں اپنے بال سفید کر لئے تھے اسی پاکستان میں وہ سب سے بڑے غدار ٹھہرائے گئے بلکہ انہیں میر جعفر و میر صادق کی اولاد بھی قرار دے دیا گیا (جبکہ میر جعفر کی نسبت سے ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزارشتہ رکھتےتھے)۔ اتنی تعزیروں اور تادیبوں کے باوجود یہ رہنما حامد میر کی طرح بار بار پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہے۔اگرتلہ سازش کیس میں ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ وہ تب بھی پاکستانی ہی رہے جب پلٹن میدان ڈھاکہ میں اس کے لوگ یا حمایتی بنگالی عوام ایک دیش کا مطالبہ کرتے رہے لیکن انہوں نے کہا نہیں ’’میں اس پاکستان کو کیسے توڑ سکتا ہوں جس کیلئے میں نے اپنے بال سفید کر لئے، نہیں چھ نکات چاہئیں۔ وہ تصویر آج بھی عام ہےجس میں کراچی کے ایک ہوٹل میں ون یونٹ مخالف اجلاس ہے جس میں سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے ساتھ شیخ مجیب الرحمٰن مع اپنے عوامی لیگ کے سینئر ساتھیوں سمیت شریک ہیں اور اسٹیج کے اوپر دیوار پر پاکستان کے بانی کی فریم شدہ تصویر آویزاں ہے۔
محض مشرقی پاکستان کیا۔ مغربی پاکستان میں بھی غداری کے سرٹیفکیٹ وطن عزیز کے قیام کے شروعاتی ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں شروع ہو چکے تھے۔ ٹھپے پہ ٹھپے لگائے جا رہے تھے۔ کشمیر کی جنگ لڑنے والے بہترین سپاہی اور جنرل اکبر خان بھی غدار قرار دے دیئے گئے، تو میجر اسحاق بھی غدار، کیپٹن پوشنی بھی غدار، اسکواڈرن لیڈر جنجوعہ بھی غدار تو فیض احمد فیض بھی غدار، شاید انہی دنوں میں ہی فیض احمد فیض نے لکھا تھا:
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے
اردو ادب کا صحیفہ نما اور مہابھارت لکھنے والی آگ کا دریا جب لکھا تو قرۃ العین حیدر بھی غدار ٹھہری۔ آخرکار ایسی سندوں سے تنگ آکر اور ہراساں ہوکر وہ بھی نو آزاد ملک چھوڑ کر واپس اپنے اصل وطن ہندوستان چلی گئيں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ آئے دن کے پولیس چھاپوں سے تنگ آکر نقل وطنی کر جانے والا ساحر لدھیانوی جیسا عظیم شاعر بھی اس پاک سرزمین پر کبھی بھی غدار ٹھہرایا جا سکتا تھا تو عظیم استاد بڑے غلام علی خاں صاحب بھی۔ استاد دامن جیسا درویش شاعر اور شخص بھی تو غدار ٹھہرایا گیا اور اس کے اس حجرے سے بم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا جس میں ہونے والے چوہوں کو بھی وہ چُوری کھلاتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں وہ بھوک میں ان کی کتابیں نہ کتر کر کھا جائيں۔
استاد دامن،حبیب جالب،ملک جیلانی ان کی دونوں بیٹیاں،جسٹس ایس اے رحمان کے دونوں بیٹے، سی آر اسلم ،عابد حسین منٹو، رضا کاظم، پروفیسر وارث میر، پروفیسر عزیز الدین احمد، مظہر علی خان، طاہرہ مظہر علی خان ،ماسٹر خان گل، اے حمید، حمید اختر، میجر آفتاب، تاج محمد لانگاہ سمیت سیکڑوں پنجابی سرائیکی ایک نہ دوسرے دور میں غدار۔ ’’ٹکا (خان) ساڈا شیر ہے باقی ہیر پھیر ہے‘‘ اور تو اور نام نہاد شیر پنجاب غلام مصطفی کھر اور جاوید ہاشمی بھی غدار۔ وہی غلام مصطفی کھر اور جام صادق علی جنہیں کبھی را کا ایجنٹ کہا گیا پھر انہیں باعزت طور اقتدار کے ایوانوں میں بلا کر حلف اٹھوا کر وزیر اور وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ نوازشریف بھی شاید ہی ایسے تمغے عطا ہونے سے محروم رہے ہوں۔
ویسے اس ملک میں جو حشر شیروں کا ہوا ہے وہ بھی غداری کی تاریخ کی طرح بڑا دلچسپ ہے۔کبھی جس سانس میں شیخ عبداللہ کو شیر کشمیر کہا گیا پھر دوسری سانس میں انہیں غدار بھی۔برصغیر میں آزادی کی تحریک کے تین عظیم رہبر خان عبدالغفارخان، عبدالصمد خان اچکزئی اور جی ایم سید کو تاحیات غداری کی سندیں دی گئیں۔ وہی جی ایم سید جو عبداللہ ہارون کے ساتھ جناح صاحب کو پہلی بار کراچی میں نیپئر روڈ پر ایک بڑے جلسے میں متعارف کرانے کو لائے تھے۔ جنہوں نے پہلی بار سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد منظور کرائی تھی مرتے دم تک نظربند رکھے گئے۔ جی ایم سید اپنے ساتھیوں سمیت، حیدر بخش جتوئی، سوبھو گیانچندانی، جام ساقی، رسول بخش پلیجو یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو اور اس کے بھائی شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو و شوہر بھی غدار اور سیکورٹی رسک رہے۔ فہمیدہ ریاض اور ان کے شوہر ظفر اجن بھی غدار تو الطاف حسین، تو ایک نہ دوسرے دور میں ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ بھی
ولی خان، بیگم نسیم ولی اور اسفند یار ولی، خیر بخش مری، عطاءاللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، محمود خان اچکزئی اور ہزاروں بلوچ اور پشتون پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک غداری کی فتوئوں کی تلواروں تلے آتے رہے۔ جو تلواریں قلم کی صورت کبھی ججوں اور لال ٹوپی اور لال بھجکڑ نما جرنلسٹوں کے ہاتھ میں تو کبھی کبھی بندوقوں کی صورت جرنیلوں کے۔
کبھی حسین حقانی غدار تو کبھی حامد میر غدار۔
ہاں جاں کی زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجئے
ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گذر کر جاتی ہے
میمو گیٹ کے بعد اب جیو گیٹ۔
تاریخ اور ملک کے ساتھ ایک طربیہ المیہ خوفناک ڈرامہ کھیلا جاتا رہا ہے۔ آج تک۔
یہ ملک ہے کہ اب تک فراز کا شہر آشوب:
رکھوالوں کی نیت بدلی…گھر کے مالک بن بیٹھے
جو غاصب محسن کش تھے…صوفی سالک بن بیٹھے
جو آواز جہاں سے اٹھی …اس پر تیر تبر برسے
ایسے ہونٹ سلے لوگوں کے…آوازوں کو بھی ترسے
شایدایک بار پھر ہونٹ سلے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں۔ شاید ایک سابق فوجی آمر کو غداری کے مقدمے سے بچانے کیلئے تمام ’’بلڈی سویلینز‘‘ کو ’’غدار‘‘ ٹھہرایا جائے۔ سوائے ان کے سربراہوں اور ان کے بٹمین قلم کے سوداگروں کے باقی سب غدار ہیں۔
تازہ ترین