• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں ذاتی تعلق کے علاوہ میرصاحب کا اس لئے مداح ہوں کہ یہ اخبار کی پالیسی کے حوالے سے کمپرومائز صرف اس حد تک کرتے ہیں جو ناگزیر ہو ورنہ ڈٹ جاتے ہیں ایک گزشتہ مکروہ ترین دورِ سفاکیت میں میر صاحب جب حق گوئی سے باز نہ آئے تو ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لئے گئے انہیں قید کر لیا گیا انہوں نے بڑی بہادری سے آٹھ ماہ قید کی سزا کاٹی میں ان سے ملنے گیا تو ان کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی وہ پوری طرح آسودہ تھے انہوں نے بتایا کہ جرمانے کی رقم ادا کر کے انہیں رہائی مل سکتی ہے مگر ان کی اماں، جنہیں وہ چیف جسٹس سمجھتے تھے، نے کہا کہ اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں اس عزت کے مقابلے میں جو ہمیں موجودہ صورت میں مل رہی ہے میر صاحب مختلف ادوار میں اپنے اشتہارات بھی بند کرا چکے ہیں جو شخص عزت کرتا ہے وہ عزت کروانا بھی جانتا ہے خواہ اس کیلئے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینا پڑے اور میر صاحب ایسے مراحل سے خراماں خراماں گزرتے رہے ہیں!

اور آخر میں ایک سخن گسترانہ بات کہ میرے جنگ جائن کرنے پر مقامی عملہ کچھ زیادہ خوش نہیں تھا چنانچہ انہوں نے برس ہا برس کوشش کی یہ شخص کہیں اور چلا جائے میں نے یہ سال بہت کرب سے گزارے اور میر صاحب سے شکایت نہیں کی اور نہ کچھ اور سوچا۔ الحمدللہ

ابوالاثر حفیظ جالندھری کے تصور سے ذہن میں یادوں کے قمقمے سے جل اٹھتے ہیں ابوالاثر سے میرا پہلا تعارف آج سے کم و بیش ساٹھ پینسٹھ سال پیشتر جامع مسجد اے بلاک ماڈل ٹائون لاہور کی دیوڑھی میں ہوا تھا۔ فن تعمیر میں منفرد اس انتہائی خوبصورت مسجد میں میرے والد ماجد پیرزادہ بہاء الحق قاسمی اپنےاستاد حضرت مولانا مفتی محمد حسین صاحب (جامعہ اشرفیہ) کے حکم پر وزیر آباد میں سکول کی ملازمت چھوڑ کر بطور خطیب تشریف لائے تھے۔ اس مسجد کی ڈیوڑھی میں دیواروں پر جو ٹائلیں لگی تھیں ان میں ماڈل ٹائون کے ان اہل دل مکینوں کے نام کندہ تھے۔جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل ہندو آبادی کی اکثریت والی اس سوسائٹی میں اس مسجد کی تعمیر میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ ان میں ایک نام حفیظ جالندھری کا بھی تھا۔ میں اس نام کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھا۔ ان دنوں میں نے نیا نیا سائیکل چلاناسیکھا تھا۔ چنانچہ گھر میں کسی فرد کو بازار سے کوئی چیزمنگوانا ہوتی میں سائیکل کے شوق میں اپنی خدمات پیش کرتا کیونکہ بغیر کسی کام کے بھائی جان اپنی نئی نویلی سائیکل کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے۔ اس کے بعد میںگھر والوں کو

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

کی کیفیت میں مبتلا کرکے سڑکیں ناپنے لگتا اور گھر واپس جانے سے پہلے ماڈل ٹائون کا رائونڈ مکمل کرتا جو ڈھائی میل کی گولائی میں واقع تھا اور جس میں اے، بی ،سی ، ڈی،ایف، جی اور ایچ بلاک واقع ہیں۔ حفیظ صاحب کا گھر جی بلاک میں تھا میرا گزر ادھر سے بھی ہوتا تھا جہاں گھنے درختوں سے اٹے ہوئے ایک گھر میں حفیظ صاحب رہتے تھے۔ بہت دفعہ جی چاہا کہ کسی روز اس گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹائوں مگر ہمت نہیں پڑتی تھی تاہم کچھ برس گزرنے کے بعد جب میرے شعور نے آنکھیں کھولیں تو حفیظ سے میرا تعارف ہوا اور مجھے پتہ چلا کہ

سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی

والا سلام جو میں کئی بار سن چکا ہوں وہ حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ہے۔ ذرا ’’بالغ‘‘ ہونے پر ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘والا نغمہ اور تھوڑی سی عملی زندگی کے تجربے کے دوران؎

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

والے شعر کی معنویت بھی سمجھ میں آئی۔

حفیظ صاحب سے جب ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں مکمل احترام کے ساتھ ساتھ بے تکلفی کا عنصر بھی شامل ہوا تو مجھ پر یہ بھید کھلا کہ جو بات حفیظ صاحب کے دل میں ہوتی ہے وہ بہرحال ان کی زبان پر آ کر رہتی ہے۔ حفیظ صاحب اپنی بات کبھی کڑوے اور کبھی میٹھے انداز میں بہرحال کہہ دیتے تھے۔ انکی محبت اور نفرت دونوں بہت عمیق تھیں جن کو ناپسند کرتے تھے برسرمحفل اس پر چبھتے ہوئے فقروں کی بوچھاڑ کردیتے اور اسے اپنا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا اور جس سے محبت کرتے اس سے یہ محبت سنبھالنا مشکل ہو جاتی ، مشاعرے میں بہت کم کسی کو داددیتے۔ نوجوان شاعروں میں سے خالد احمد وہ خوش نصیب شخص ہے جس کے متعلق حفیظ صاحب کی رائے تھی کہ اس شخص کو لفظوں کا شعور حاصل ہے۔ حفیظ صاحب شعر کی فنی نزاکتوں کا کس درجہ خیال رکھتے تھے اس کا اندازہ مجھے اس روز بھی ہوا جب میں نے ان کی موجودگی میں یہ شعر پڑھا۔؎

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوںسے ملاقات ہوگئی

یہ شعر سن کر کہنے لگے یہ کس کا شعر ہے؟ میں نے کہا آپ کا ہے اور کس کا ہے، بولے میں ’’کھا کے کمیں‘‘ ایسی بدذوقی کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہوں میرے شعر میں تو یہ مصرع ’’دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف‘‘ ہے ’’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف‘‘ نہیں ہے۔ حفیظ صاحب کو میں نے اور میری نسل کے دوسرے لوگوں نے جس زمانے میں بہت قریب سے دیکھا وہ ان کی صحت اور ذہنی اضمحلال کا زمانہ ہے مگر اسکے باوجود دوران گفتگو ان کے فقرے کی دھار کند نہیں ہوتی تھی وہ بے تکلف محفلوں میں اپنے ساتھیوں پر چبھتے ہوئے فقرے لڑھکاتے بھی تھے اور مخالف سمت سے آنیوالے فقروں کو ’’ڈی فیوز‘‘ کرنا بھی جانتے تھے۔ ایک دفعہ میرے گھر پر ایک محفل میں حفیظ صاحب تشریف لائے یہاں سینئر ادیبوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ امجد اسلام امجد، دلدار پرویز بھٹی اور خالد احمد بھی موجودتھے اور اس روز یہ سبھی دوست شرارت کے موڈ میں تھے چنانچہ انہوں نے حفیظ صاحب کے ساتھ لاڈیاں شروع کر دیں، ان دوستوں کی طرف سے کچھ تیز جملے بھی سرزد ہو گئے مگر حفیظ صاحب نہ برا ماننا جانتے اور نہ ہتھیار ڈالنا ان کی سرشت میں تھا چنانچہ انہوں نے جوابی حملے کر کے ’’دشمن‘‘ کے حملوں کا منہ پھیر دیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین