• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنّف: جبّار مرزا

صفحات: 360، قیمت: 3000 روپے

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔

فون نمبر: 0515101 - 0300

جبار مرزا کا شمار مُلک کے اساتذہ صحافیوں اور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ مختلف اخبارات و جرائد سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے، جس کے دَوران جہاں ایک طرف اخبارات، صحافیوں اور اُن کی تنظیموں کےاندرونی معاملات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا، وہیں صحافتی ذمّے داریوں کے سلسلے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات سے بھی گہرے روابط رہے۔

وہ اپنی صحافتی یادیں کچھ عرصے سے فیس بُک پر شئیر کرتے آ رہے ہیں، جنھیں نہ صرف بے حد پسند کیا گیا، بلکہ اُن کی کتابی شکل میں اشاعت کا مطالبہ بھی ہوتا رہا، جو اب قلم فاؤنڈیشن کے تعاون سے پورا ہوگیا۔

مرزا صاحب کا اِن یادداشتوں سے متعلق کہنا ہے کہ’’یادیں صحافتی بھی ہیں، ذاتی بھی اور دھرمی بھی۔ یہ تاریخ ہے، سرمایہ ہے۔ ہمیں تو اِتنا یاد ہے کہ کچھ بے خانمائی کے واقعات ہیں، جو جا بجا بکھرے پڑے تھے۔ کچھ جوان دنوں کی یادیں ہیں، جو ٹوٹ چُکیں، مگر بکھرنے سے پہلے قرطاس پر اُتار دیں۔‘‘ اور کیا خُوب اُتاریں۔ اُن کا قلم بے باک اور دلیر ہونے کے ساتھ ذمّے دار بھی ہے، جو کچھ بیان کیا ہے، اُس میں یہ دونوں وصف نمایاں ہیں۔

خوش مزاجی اور شگفتگی اُن کی شخصیت کا خاصّہ ہے، اِسی لیے کتاب کے صفحات بھی جگہ جگہ مُسکرا رہے ہیں۔ بقول پروفیسر نسیم خان سیما’’ ایک ایسا صاحبِ گداز انسان کہ جیسے قدرت نے اُنھیں بناتے ہوئے اُن کی مٹّی میں محبّت کی خوش بُو شامل کردی ہو۔‘‘محمّد احمد ترازی اِس کتاب کی اشاعت کے بنیادی محرّک ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ’’یہ یادیں مرزا صاحب کے صحافتی دَور کے بکھرے واقعات ہی تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی نا ہم واریوں کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ 

یہ یادیں اُن کی محبّت و اخلاص، اصول پسندی اور صداقت کی آئینہ دار ہیں۔‘‘اِس کتاب میں درجنوں افراد اور اداروں کا ذکر ہوا ہے اور یہ سب’’ ذکرِ خیر‘‘نہیں ہے، اِس لیے یہاں حوالے دینا شاید مناسب نہ ہو، تاہم اِتنا ضرور ہے کہ کتاب کے مطالعے سے بہت سے قدآور، بونے لگنے لگے ہیں۔ مرزا صاحب نے ایک ایسی دل چسپ کہانی بھی بیان کی ہے، جو سات طوائفوں کے گرد گھومتی ہے، لیکن تسلّی کی بات یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود شریف انسان ہیں۔

اُنھوں نے اِس طرح کی کہانیوں کے ذریعے جس طرح معاشرتی منافقت اور دوغلے پن کا پردہ چاک کیا ہے، یہ اُن ہی جیسے افراد کی ہمّت ہے۔ معروف صحافی، نواز رضا نے ایک موقعے پر مرزا صاحب کو کہا تھا کہ’’مَیں کوئی تمہاری طرح پاگل ہوں، جو لکھوں۔‘‘ مگر پھر بھی مرزا صاحب نے یاد داشتیں لکھ ہی ڈالی، اب یہ پاگل پن ہے یا کچھ اور، اِس کا فیصلہ قارئین ہی کریں گے یا وہ، جن کا کتاب میں ذکر ہوا ہے۔