ایس پی سٹی کی حیثیت سےمَیں ایک روز اپنے دفترمیں بیٹھا کچھ فائلزچیک کررہا تھا کہ اردلی نے ایک وزیٹنگ کارڈ لا کرمیزپررکھ دیا۔ کوئی ایڈووکیٹ صاحب ملنا چاہتے تھے۔ مَیں نے اردلی سےکہا،بھیج دو۔تھوڑی دیربعد کالی ٹائی لگائے، کالےکوٹ میں ملبوس ایک درمیانی عُمر، گٹھّےجسم کا شخص اندر داخل ہوا۔
اُس نے آتے ہی ایک تحریری درخواست میرے آگے رکھ دی۔ ’’سر! اِس پر پرچے کے آرڈر کریں۔‘‘ مَیں درخواست پڑھ کرلرزاُٹھا۔وکیل صاحب سے پوچھا۔’’جس خاتون کی طرف سے یہ درخواست تحریرکی گئی ہے، وہ کہاں ہیں؟‘‘کہنے لگے۔ ’’میرے دفتر میں ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’خاتون کو لے کرآئیں۔‘‘ وکیل صاحب چلے گئے اور کوئی ایک گھنٹے بعد واپس آکے کہنےلگے کہ ’’خاتون نے آنےسےانکارکردیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ’’جو کچھ درخواست میں لکھا ہے، وہ درست ہے۔ پولیس ملزم کو گرفتار کرے۔‘‘مَیںنےکہا۔’’وکیل صاحب! آپ جانتے ہیں، درخواست میں کیا لکھا ہے؟‘‘ کہنےلگے۔ ’’جی بالکل، اچھی طرح جانتا ہوں۔
اِسی لیے کہہ رہا ہوں کہ ملزم کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘‘ مَیں نے زور دے کر کہا۔ ’’وکیل صاحب!خداکاخوف کریں۔ میاں بیوی میں اختلاف ہوجاتا ہے، علیحدگی بھی ہوسکتی ہے، مگرکوئی عورت اپنےخاوندپراِس طرح کے گھناؤنے الزام نہیں لگاتی، جوآپ لکھ لائے ہیں۔‘‘ وکیل صاحب کہنےلگے۔ ’’ہم نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے، آپ کارروائی کریں۔‘‘ مَیں نے بلند آواز میں کہا۔’’درخواست میں لکھا ہےکہ’’میری بچیاں ہاسٹل میں رہتی ہیں اور اُن کا باپ رات کو اپنے دوستوں کو لےکرہاسٹل گیا اوروہاں وہ خُود اور اُس کے دوست معصوم بچیّوں کی عزّت پامال کرتے رہے۔‘‘
کچھ توخدا کاخوف کریں، آپ کیسا گھناؤنا الزام لگا رہے ہیں، کیا آپ کا دل یہ بات مانتا ہے؟‘‘وکیل صاحب کہنے لگے۔ ’’بالکل ایسا ہی ہواہے۔‘‘ مَیں نےکہا۔ ’’ٹھیک ہے، جو خاتون خاوند پرایسا الزام لگارہی ہے، مَیں اُس کے منہ سے سُننا چاہوں گا۔ مَیں دیکھوں گا کہ اُس کی دماغی حالت درست ہے؟ کیا وہ بقائمی ہوش و حواس اپنی بچیوں کے باپ پر اتنا سنگین الزام لگا رہی ہے۔ مَیں خاتون سے ملے بغیر کوئی کارروائی نہیں کروں گا۔‘‘ مَیں نے وکیل صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’دیکھیں، مَیں خُود بنیادی طور پر وکیل ہوں اور وکیل کا کام موکل کی صحیح راہ نمائی کرنا ہوتا ہے، اُسے گُم راہ کرنا یا غلط مشورے دینا نہیں۔
آپ اچھی طرح سوچ لیں اور اتنا کریہہ الزام لگاتے وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم سب نے ایک روز اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ آپ جائیں اور خاتون کو سمجھائیں۔‘‘ وکیل صاحب اُٹھ کرچلے گئے اور پھر کوئی پون گھنٹے بعد واپس آئے۔ دیکھتے ہی مَیں نے پوچھا۔ ’’آپ خاتون کو لائے ہیں؟‘‘کہنے لگے۔ ’’نہیں، وہ آنے پرآمادہ نہیں۔‘‘ مَیں نے کہا ’’آپ یقیناً اُسے سمجھانے میں تو کام یاب ہوگئے ہوں گے، درخواست کا متن تبدیل کرکے لائے ہیں؟‘‘ کہنے لگے۔ ’’نہیں، ہم اپنے موقف پر قائم ہیں اور درخواست کا یہی متن درست ہے۔‘‘
مَیں نے کہا۔ ’’آپ ایک بار اچھی طرح اِس کے نتائج سے متعلق سوچ لیں۔ اگرالزام جھوٹا ثابت ہوا، تو مدعی کے خلاف قذف کا کیس درج ہوگا اور اُس کی سزا بھی زنا کے برابر ہے۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’جانتا ہوں، آپ بس کاروائی کریں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’درخواست گزار یعنی ملزم کی بیوی تو میرے سامنے نہیں آئی، نہ ہی مَیں نے اُس کی زبانی یہ الزام سُنا ہے۔
مَیں تو یہ بات صرف آپ کے منہ سے سُن رہا ہوں، لہٰذا مَیں اِس کیس میں مُدعی آپ کو تصور کروں گا۔ آپ اس درخواست پر(جوکہ الزام الیہہ کی بیوی کی طرف سے لکھی گئی ہے) یہ لکھ کر دستخط کیجیے کہ درخواست کے مندرجات درست ہیں اور مَیں الزام الیہہ کے خلاف مقدمہ درج کروانا چاہتا ہوں۔‘‘ لگتا تھا، وکیل نے بیوی کی سائیڈ سے بھاری فیس لی ہوئی تھی۔
اس لیے اُس نے درخواست پر لکھ دیا اور دستخط بھی کردیئے۔ دوسرے روز ہم نے الزام الیہہ کو بلالیا۔ وہ ایک پڑھا لکھا شریف سا آدمی تھا۔ پیشے کے لحاظ سےانجینئر تھا۔ اُس نے بتایا کہ ’’میرے لیے لائف پارٹنر ڈھونڈنے میں والدین سے غلطی ہوگئی۔میری بیوی اوراُس کےبھائی وغیرہ جرائم پیشہ لوگ ہیں اور یہ بات شادی کے وقت ہمیں پتا نہیں چل سکی۔
یہ وکیل اُس کے بھائیوں کے ساتھ مل کر لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے اور کیس درج کروا کےصُلح کے نام پر بھاری رقوم بٹورتا ہے۔ اِنہوں نے میری بیوی سے خلع کا دعویٰ کروایا ہےاوربچیوں کوایک مدرسے کے ہاسٹل میں داخل کروادیا ہے۔‘‘ معصوم بچیوں کو باپ کے سامنے بلایا گیا، تو وہ باپ سے اُسی شدّتِ جذبات سےملیں، جیسے بیٹیاں، اپنے باپوں سے ملتی ہیں۔ مَیں نے باپ کی عدم موجودگی میں بچیوں سے پوچھا کہ ’’آپ کوامّی سے زیادہ پیار ہے یاابّو سے؟‘‘
انہوں نے پہلے کہا۔ ’’دونوں سے۔‘‘ پھر تھوڑے توقف کے بعد بولیں۔ ’’ابّو سے زیادہ۔‘‘ مَیں نے وکیل کی تحریر پر مقدمہ درج کروادیا اور ایک پڑھے لکھے انسپکٹر کو اِس کیس کی تفتیش پرمامورکیا،جس نے تین دن میں تفتیش مکمل کرلی۔ جس میں ہر لحاظ سے ثابت ہوگیا کہ مدرسے کے ہاسٹل میں شام کے بعد کسی کو بھی کسی بچّی کے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کوئی شخص بچیوں کے کمروں تک جاہی نہیں سکتا۔ ملاقات کےلیےصرف والد آتا ہے اور وارڈن کےکمرے میں اُس کی موجودگی میں بچیوں سے مل کرچلا جاتا ہے۔‘‘ یعنی درخواست میں لگائے گئے الزامات سو فی صد لغو،بے بنیاد تھے۔
مقدمہ جھوٹا ثابت ہونے پر پولیس نے اُسے خارج کرنے کی رپورٹ لکھ کر عدالت میں بھیج دی اورعدالت نے پولیس کے دلائل اور حتمی موقف سے اتفاق کرتے ہوئے مقدمہ خارج کرنے کا حُکم دے دیا۔ عدالت کے حُکم سے پہلے قذف کی کارروائی نہیں ہو سکتی، لہٰذا جوں ہی عدالت سے مقدمہ خارج ہونے کا حُکم موصول ہوگیا، ہم نے وکیل کے خلاف قذف کا مقدمہ درج کر دیا۔
منصفِ اعلیٰ یعنی ربِّ کریم نے انسانوں کی جان، مال اور عزت کو تحفظ فراہم کیا ہے اور اُس کے لیے حدود اور قوانین مقرر کردیئے ہیں، اُس کا حکم ہےکہ کسی دوسرے انسان پر جھوٹا الزام یا بہتان مت لگاؤ، اگر کوئی کسی پر زنا کا بےبنیاد الزام لگائے گا، تو الزام جھوٹا ہونے کی صُورت میں مدعی کے خلاف قذف کی کارروائی ہوگی اور اُسے وہی سزا ملے گی، جو اِس جُرم کا ارتکاب کرنے والے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
بہرحال، وکیل گرفتاری سے بچنے کے لیے غائب ہوگیا اور چند روز بعد ہمیں ہائی کورٹ سے پروانہ موصول ہوا تو پتا چلا کہ اُس نے ضمانت قبل ازگرفتاری کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دی ہے، جو جسٹس خلیل رمدے صاحب کی عدالت میں لگی ہے اور اِس ضمن میں مجھے یعنی ایس پی سٹی کو بھی (چوں کہ ایس پی سٹی کے حُکم پر مقدمہ درج ہوا تھا) بلایا گیا ہے۔
جسٹس رمدے کا عدالت میں طرزِ عمل کبھی بھی Graceful یا dignified نہیں رہا۔ وہ بڑھکیں مارنے اور پیش ہونے والے افسروں کو بےعزّت کرنے کے شوقین رہے ہیں۔ اب یہاں تو شاید پہلی بار ایک پولیس افسر کے حُکم پر ایک وکیل کے خلاف قذف کا پرچہ درج ہوا تھا، اِس لیے خیال تھا کہ جج پولیس افسر پر چڑھائی کرنے اور اُسے بےتوقیرکرنے کی پوری کوشش کرے گا، لہٰذا مَیں بھی اِس ممکنہ حملے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو کر گیا۔ مگرچند منٹ کی کارروائی ہی میں محسوس ہوگیا کہ جج نے فائل کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور وہ پڑھ چُکے ہیں کہ پولیس افسر وکیل کو بار بار موقع فراہم کرتا رہا کہ وہ ایسا سنگین الزام لگانے سے باز رہے۔
وکیل کی حمایت میں ہائی کورٹ بار کے تمام عہدےدار پیش ہوئے تھے۔ جب عدالت نے ملزم (وکیل) کے وکلاء سے پوچھا کہ ’’آپ کو ایس پی سٹی کی نیت پر کوئی شک ہے؟ یا آپ سمجھتے ہیں کہ ایس پی نے وکیل کے خلاف جھوٹا کیس بنایا ہے؟‘‘ تو انہوں نے بیک زبان کہا۔ ’’نہیں جنابِ والا! ایس پی چیمہ صاحب ایک دیانت دار افسر ہیں۔ ہمیں اُن پر کوئی شک نہیں، ہم صرف رحم کی درخواست کرتے ہیں، ہمارے پاس دفاع کے لیے کوئی دلیل نہیں۔‘‘
عدالت نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا۔ ’’رحم تو ربِّ رحیم وکریم کا prerogative ہے، پولیس افسروں اور جج صاحبان پر لازم ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔‘‘ وکلاء کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، وہ ضمانت کے لیے کوئی دلیل نہ دے سکے، تو عدالت نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ ’’پولیس ملزم کو کمرۂ عدالت کے باہر سے گرفتار کرسکتی ہے۔‘‘
اِس موقعے پرمَیں نےعدالت سےکہا کہ ’’کسی وکیل کو گرفتارکرنا ہمارے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں، اب بھی اگر ملزم اپنے کیے پر شرمندگی کااظہارکرےاوربچیوں کےشریف، پڑھے لکھے باپ سے معافی مانگ لے، تو ہم بھی مدعی سے کہیں گے کہ وہ ملزم کو معاف کردے اور اس طرح یہ قذف کی کاروائی سے بچ سکے گا۔‘‘ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل خواجہ شریف سے کہا کہ آپ کو پولیس کی اس پیش کش سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔‘‘ عدالت میں ہونے والی اس کارروائی کے ایک گھنٹے بعد خواجہ شریف صاحب تو میرے دفتر آگئے، مگر ملزم نہ آیا۔
خواجہ صاحب نے بتایا کہ اُسے دوسرے وکلاء نے کہا ہے کہ معافی کسی صُورت نہیں مانگنی۔ ہم تمہاری ضمانت کروالیں گے۔ ملزم دو تین ہفتے غائب رہا۔ بعد میں ایک روز صُبح پیش ہوگیا، مگر اُسی روز بیسیوں وکلاء جتھے کی صُورت سیشن جج کی عدالت میں گئے۔ضمانت (بعداز گرفتاری) کی درخواست دی اور دبائو ڈال کر ضمانت منظور بھی کروالی۔ ایس پی سٹی کے لیے کچھ امتحان ابھی باقی تھے۔ قانون کی حُکم رانی قائم کرنے کا عشق و جنون ہو تو صُورتِ حال کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کہ ؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو… مَیں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا۔
اس واقعے کے قریباً ایک سال بعد مجھے ایس ایس پی بہاول پور تعینات کرنے کا نوٹی فیکیشن جاری ہوگیا۔ اس نوٹی فیکیشن کے ایک دو روز بعد (جب کہ مَیں ابھی لاہور ہی میں تھا) لاہور کےایک ایڈیشنل سیشن جج، رضا خان صاحب کی عدالت سے سمن پہنچ گئے کہ آپ ایک وکیل کے خلاف درج ہونے والے قذف کے مقدمے میں فلاں تاریخ کو گواہ کے طور پرعدالت میں پیش ہوں۔ پتاچلا کہ اب اس کیس کا ٹرائل شروع ہوچُکا ہے۔
ایک دو تاریخوں پر مَیں خُود نہ جا سکا، میرے وکلاء نے میری نمائندگی کی۔ پھر ایک تاریخ پرعدالت کا حکم نامہ ملا کہ آج آپ پر جرح ہونی ہے، اس لیے ضرور حاضر ہوں۔ لہٰذا مَیں عدالت پہنچ گیا۔ ملزم وکیل کی جانب سےفوج داری کاایک مشہور وکیل پیش ہوا۔
جرح شروع ہوئی، تو اُس نے چُھوٹتے ہی میرے کردار اور نیّت پر حملہ کیا اور پہلا وار یا سوال یہ کیا کہ ’’مسٹر ایس ایس پی بہاول پور! آپ نے کچھ عرصہ پہلے ایس پی سٹی، لاہور کے طور پر امتحانی عملے کو مُرغا بنایا تھا، جس پر میرے موکل نے آپ کے منہ پر تنقید کی تھی، تواِس انکوائری کے دوران سیشن کورٹ سے نکلتے ہوئے آپ نے میرے موکل کو دھمکی دی تھی کہ’’مَیں تمہیں ایسا سبق سکھاؤں گا کہ تم ہمیشہ یاد رکھو گے۔‘‘ اور اُسی عناد ودشمنی کے سبب آپ نےانتقامی کارروائی کرتے ہوئے میرے موکل کے خلاف یہ جھوٹا کیس بنایا ہے۔‘‘ یہ بات سُن کر مجھے بہت غصّہ آیا۔
مَیں نے وکیلِ صفائی مسٹر اعوان سے کہا۔ ’’آپ کو مجھ پر ایسا الزام لگاتے ہوئےشرم آنی چاہیے، حالاں کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کا یہ الزام بالکل جھوٹا، لغو اورواہیات ہے۔‘‘جج صاحب اور میرے وکلاء مجھے ٹوکتے رہے کہ آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ ’’یہ غلط ہے۔‘‘ مگر مَیں نے اُس معروف وکیل پر، جو گواہوں کے پاؤں اُکھاڑ دینے کے لیے مشہور تھا، چڑھائی کردی اور بآوازِ بلند کہنا شروع کیا کہ ’’تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ملزم کے ساتھ میری کوئی دشمنی نہیں، مَیں اِسے جانتا تک نہیں تھا، اِس کے باوجود تم مجھ پر اِتنے گھٹیا الزام لگا رہے ہو، یہ ہےتمہاری وکالت؟ تو مَیں لعنت بھیجتا ہوں، ایسی وکالت اورایسے سسٹم پر۔
تم ایک سینئر پولیس آفیسر کے ساتھ یہ کررہے ہو، توایک عام گواہ کے ساتھ کیا کرتے ہوگے۔ اسی لیے تو لوگ گواہی نہیں دیتے اور بڑےبڑےمجرم سزا سےبچ جاتے ہیں، تم جیسے لوگ ہی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ تمہیں اپنے اس طرزِ عمل پر شرم آنی چاہیے۔‘‘ وکیل نے روسٹرم چھوڑدیا اور سیشن جج نے کیس کی سماعت یہ کہتے ہوئے غیرمعیّنہ مدّت کے لے ملتوی کردی کہ ’’مَیں یہ کیس نہیں سنوں گا۔‘‘
اُس کے بعد کیس کا کیا بنا۔ مجھے معلوم نہیں، مگر اُس کے بعد مجھے کسی عدالت کی طرف سےکوئی بلاوا نہیں آیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک تو ہمارا عدالتی نظام انتہائی فرسودہ ہوچُکا ہے۔ یہ جدید دَور میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے۔ دوم، اِس پورے سسٹم کو وکلاء نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اِسے فوری طورپر ری فارم کرنے کی ضرورت ہے، مگر کسی بھی سسٹم کو عوام کی فلاح کے لیے تبدیل کرنا، ہماری کسی حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں۔
بہاول پور کے وفاقی وزیر، گردیزی صاحب نے وزیرِاعظم سے کہہ کر میری تعیناتی کے احکامات منسوح کروادیئے۔ چیف سیکرٹری پرویز مسعود اور آئی جی چوہدری سردار محمّد صاحب نے مجھے بتایا کہ ہم نے وزیر صاحب سے کہا کہ ہم بہت اچھا افسر بھیج رہے ہیں، تو وزیرنےکہا کہ ’’ہمیں اتنا اچھا افسر نہیں چاہیے۔‘‘ چناں چہ کچھ روز بعد مجھے بہاول پور کی بجائے پنجاب کے آخری ضلعے رحیم یارخان میں تعیّنات کردیا گیا۔ (جاری ہے)