ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس کے راج سنگھاسن پرآخرکار براجمان ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں، ٹرمپ کی چارسال کے وقفے کے بعد تاریخی واپسی ہر لحاظ سے عالمی تاریخ کا ایک منفرد اور متاثر کن واقعہ ہے جسکے دوررس اور دیرپا اثرات بین الاقوامی سطح پر محسوس کیے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دن متعدد ایگزیکٹو حکم ناموں پر دستخط کرکے امریکہ کی بطور سپرپاور مستقبل کی پالیسیوں کی ایک واضح جھلک دکھا دی ہے۔حالیہ پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اب امریکہ کی ترجیحات کی فہرست سے خارج ہوچکا ہے،سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے دورِاقتدار میں دوطرفہ تعلقات سردمہری کی اس انتہا پر پہنچ گئے کہ جو بائیڈن نے کسی بھی پاکستانی لیڈرسے ٹیلی فونک گفتگو تک کرنا ضروری نہیں سمجھا اور چارسالہ مدت کے دوران ایک مرتبہ بھی امریکی وزیرخارجہ سمیت کسی بڑے عہدے دارنےپاکستان کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی،ٹرمپ کی انتخابی مہم میں تقریریں،امریکی ووٹرز سے وعدےاور حکم ناموں کے اجراءمیں بھی پاکستان کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا ،انہی عوامل کی بناء پر دنیا بھر کے عوام کی طرح پاکستان میں بسنے والے بھی فکرمند ہیں کہ سپرپاور امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مرتبہ وائٹ ہاؤس میں واپسی پاکستان کیلئے کیا سندیسہ لیکر آئی ہے؟ ایسی صورتحال نے میرے ذہن میں آج سے سات سال قبل تحریرکردہ اپنے ایک کالم کی یادیں تازہ کردیں جب ٹرمپ نےبطور امریکہ کے 45ویں صدرسالِ نو کی آمد پر یکم جنوری 2018ء کو پاکستان کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ میرا کچھ تاریخی حقائق کی بناء پریہ موقف رہا ہے کہ پاکستان روزِ اول سے امریکہ کا فطری اتحادی ہے اور دونوں ممالک سفارتی میدان میں لازم و ملزوم ہیں، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے دورہ امریکہ کا فیصلہ بعد میں کیا، اس سے پہلے ہی بانی پاکستان قائداعظم نے امریکہ کے ساتھ قریبی سفارتی وتعلقات کا عندیہ دےدیا تھا، سرد جنگ کے دوران پاکستان نے ایک ایسے وقت امریکہ کا کھلم کھلا ساتھ دیاجب مشرقِ وسطیٰ ممالک کی اکثریت سویت بلاک کا حصہ تھی۔پاکستان نے امریکہ کے مدمقابل سویت یونین کے عزائم کو خاک میں ملانے کا فیصلہ اس وقت کیا جب امریکہ سمیت ہر ملک سویت یونین کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا،سویت جارحیت کے خلاف افغان مزاحمت میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی تھا، سویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں پاکستان کا کلیدی کردار عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے توسط سے چین کا دورہ اس وقت کیا جب چین کی فضاؤں میں واحد غیرملکی ایئرلائن پی آئی اے اُڑان بھرا کرتی تھی، نائن الیون کے ردعمل میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور پھر بیس سال بعد امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے موقع پر پاکستان ہر جگہ آگے آگے نظر آیا، تاہم عالمی منظرنامے پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اب امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت ماضی کے قریبی اتحادی جیسی نہیں رہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ ایک حیران کُن شخصیت ہیں جو اپنے اہداف کے حصول کیلئے واضح حکمت عملی رکھتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بالکل نہیں ہچکچاتے، وہ امریکہ کو پھر سے گریٹ بنانے کا عزم لیکر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے ہیں اور وہ ہر اس رکاوٹ کو عبور کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں جو انکے راستے میں مزاحم ہو،اگراپنے دوسرے دورِ اقتدار میں ٹرمپ کا فوکس پاکستان پر براہِ راست نہ بھی ہو تو یقینی طور پر چین، ایران اور افغانستان پر ہوگا جو پاکستان کے پڑوسی ممالک ہیں اور سرحد پار کسی قسم کی غیرمعمولی صورتحال کے اثرات لامحالہ پاکستان پر پڑیں گے، ٹرمپ ماضی میں پاکستان میں قید امریکی جاسوس شکیل آفریدی کی رہائی کی بات بھی کرچکے ہیں، ٹرمپ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ خوشگوار ماحول میں ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش کا اظہار کرکے پاکستانیوں کے دِل بھی جیت چکے ہیں ،تاہم مسلمان ممالک کے تارکین وطن پر پابندی عائد کرنے کے حکم نامے سے پاکستانی شہری بھی متاثرہوئے، دوسری طرف پاکستان کی ایک جماعت کے اسپورٹرز کو امید ہے کہ ٹرمپ انکے لیڈر کی رہائی کیلئے کردار ادا کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ امن کیا،م کی باعث بنے گی جسکی واضح مثال حلف برداری سے قبل ہی پندرہ ماہ سے جاری غزہ میں خونریزی کا کامیاب خاتمہ ہے، غزہ سیزفائر کے بعد یوکرائن کے عوام کو توقع ہے کہ وہ اب وہاں جنگ بندی کرائیں گے، ٹرمپ کی جانب سے چینی صدرکو تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے مدعو کرنا ایک غیرروائتی اقدام ہے جس سے مستقبل میں انکے چین سے دوطرفہ تعلقات کی نوعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک ایران نے دہائیوں سے امریکہ دشمنی کی روش اپنائی ہے، تاہم مشرق وسطیٰ میں ایران کی زیرسرپرستی محورِ مزاحمت دم توڑ چکا ہے، غزہ سیزفائر کے بعد ایران کا مشرق وسطیٰ میں اب کوئی کردارنظر نہیں آتا، اگر ٹرمپ ایران کے اتحادی ممالک چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایران کا مزاحمت جاری رکھنا دشوار ہوتاجائے گا۔ ایسے حالات میں پاکستان کو خالصتاََ اپنا قومی مفاد دیکھ کر بہت احتیاط اور دوراندیشی سے کام لینا ہوگا، دشمن کا دشمن دوست ضرور ہوتا ہے لیکن دوست کی خاطر کسی کو بلاوجہ دشمن بنانا عقلمندی نہیں۔آج ہمیں اپنی ماضی کی دقیانوسی خارجہ پالیسی کو خیرباد کہتے ہوئے حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہوگااور ڈپلومیسی کے میدان میں متوازن تعلقات کی افادیت کو سمجھنا ہو گا۔تیزی سے بدلتے عالمی حالات کے پیش نظر امریکہ کی نظر میں پاکستان کی تاریخی اہمیت میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن امریکیوں کو پاکستان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے،حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم دیکھو اور انتظارکرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی بجائے آگے بڑھ کر اپنے فطری اتحادی امریکہ میں ٹرمپ کی واپسی کا پرجوش خیرمقدم کریں۔