• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء میں جھوٹی خبر پر تین سال قید اور 20لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ غیر قانونی مواد میں عدلیہ اور فوج کے خلاف الزام، ہتک عزت اور بلیک میلنگ کی بھی تجاویز شامل ہیں۔ اس کیلئے خصوصی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل 90روز کے اندر ایسے مقدمات نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ تفتیش 60روز میں مکمل کی جائے گی۔ فیصلے کیخلاف 60روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ عدالتوں میں سماعت مکمل ہونے کیلئے 30 دن کی مدت تجویز کی گئی ہے۔بعض لوگوں نے ابھی سے اس بل کی مخالفت شروع کردی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ اظہار رائے پر پابندی کے مترادف ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈ یا خبروں کو چھپاتا ہے اور عوام ان ’’سچی خبروں‘‘ کے متلاشی ہیں جو سوشل میڈیا پر چلتی ہیں۔ یعنی جب پوری دنیا میں فیک نیوز نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور بالخصوص پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح جھوٹی خبروں کے ذریعے عدلیہ اور فوج پر جھوٹے الزامات، ریاستی اداروں کی توہین کی جارہی ہے، کیا اس پر پابندی نہیں ہونی چاہئے ۔ مادر پدر آزادی کو اظہار رائے کہا جائے؟ کیا دنیا میں کسی بھی ملک میں ایسی آزادی ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بل پہلے ماہرین کو بھیج دیا جاتا اور پھر ان کی ماہرانہ رائے شامل کر کے اسکو اسمبلی میں لایا جاتا۔ جب سب کچھ سامنے ہےتو پھر ’’ماہرانہ رائے‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ اگر کسی عوامی مسئلہ کیلئے کوئی قانون بنا یا جاتا ہے، مثلاً رشوت، قتل، بچوں کے اغوا اور ریپ کے خلاف، تو کیا پہلے ان لوگوں سے رائے لی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جھوٹی خبریں پھیلانا، ریاستی اداروں کو تباہ کرنے کیلئے ایسی خبروں کا فروغ، فوج اور عوام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کیلئےجھوٹے الزامات اور گمراہ کن، غلیظ پروپیگنڈا کرنا، کسی کی عزت اچھالنا اور بلیک میل کرنا بھی دہشت گردی ہے اور یہ ریاست پاکستان کی مخالفت ہے۔ جو لوگ اس بل کی مخالفت کرتے ہیں وہ حقائق پر آنکھیں بند کرکے صرف مخالفت برائے مخالفت کر رہےہیں۔ اس بل میں جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں جو کچھ جھوٹی خبروں کےذریعے اس ملک اور قوم کے ساتھ کیا گیا اور جواب بھی ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں یہ سزائیں بہت ہی کم ہیں بلکہ ان سزاؤں کو تین گنا نہیں تو دو گنا تو ضرور ہونا چاہئے۔ حکومت جو ذرا سے دبائو کا سامنا نہیں کرپاتی ہمت پکڑے یا پھر قانون بنانے کیلئے متعلقہ لوگوں سے اجازت لیا کرے۔ کوئی بھی فرد جو ملک میں استحکام اور خوشحالی چاہتا ہو وہ جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس بل کی مخالفت کرنیوالے ملک و قوم کو چھوڑ یں پہلے یہ معلوم کریں کہ دین اسلام میں جھوٹ بولنے اور جھوٹی خبریں، افواہیں پھیلانے والوں کے بارےمیں کیا کہا گیا اور ان کیلئے کیا سزا مقرر ہے۔ وہاں پھر کون احتجاج کرے گا۔

پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ ہر بندہ برسرروزگار اور خوشحال ہے ،امن و آشتی کی خوشگوار فضا ہے بس دو مسئلے ایسے ہیں جن سے حکومت، عوام اور تمام متعلقین بہت پریشان ہیں اگر یہ دو مسئلے نہ ہوں تو حکومت کچھ توجہ ان خوشحال غرباء پر بھی دے جو اس ملک میں بخوشی یا مجبوری سے رہتے ہیں۔ حکومتی وفاقی و صوبائی وزراء اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و سینٹ، وزیر اعظم وفاقی اور صوبائی اسپیکرز اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کےسامنے دو اہم ترین مسئلے مذاکرات، مذاکرات اور مذاکرات اور دوسرا اہم ترین مسئلہ جوڈ یشل کمیشن برائے 9مئی اور 26نومبر کے قیام کا ہے۔کوئی دن ایسا نہیں جاتاکہ ان دو مسائل کے علاوہ کسی عوامی مسئلے پر کوئی توجہ دی گئی ہو۔

ہر روز اور ہر گھنٹہ صبح سے رات تک اسمبلی و سینٹ ہویا صحافیوں سے گفتگو، ٹی وی چینلز ہوںیا اخباری بیانات، یہی دو اہم ترین ملکی اور قومی مسائل زیر بحث ہیں۔ ادھر وزیر اعظم نے جس جاپانی طریقہ احتجاج کو اختیار کرنے کا اشارہ دیا اب وزیراعظم کا استقبال بھی پارلیمنٹ میں اوو اوو سے کیا جاتا ہے۔ کیا یہ وزیر اعظم کے منصب کو زیب دیتا ہے کہ وہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر جاپان کی کسی فیکٹری ملازمین کے احتجاج کو پاکستانی پارلیمنٹ کے برابر بنا کر خود اوو اوو کی آواز نکالیں۔ جاپانی حکمران اور عوام ایمانداری میں ساری دنیا میں ایسے سر فہرست ہیں جیسے ہم لوگ دو نمبری میں سر فہرست ہیں۔ جاپانی حکومتیں اپنے عوام کیلئے جو کرتی ہیں اور جس طرح وہاں خوشحالی ہے تو ہمارے حکمران بجائے اوو اوو سکھانے کے عوام کیلئے وہ کچھ کیوں نہیں کرتے بقول خواجہ آصف کے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔

ایف بی آر نے 386ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کے باوجود 6ارب روپے سے ایک ہزار دس مہنگی لگژری گاڑیاں افسران کیلئے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نہایت بے تکا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ افسران ان نئی قیمتی گاڑیوں میں جا کر ٹیکس اکٹھا کریں گے۔ ایف بی آر نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے تمام ارکان، اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر اور اسمبلی کے دیگر لوگوں سمیت سب کی تنخواہوں میں پانچ سے سو فیصد اضافے کابل حکومت کی طرف سے پیش کیا گیاجس کو اپوزیشن سمیت سب نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ یہی تجویز قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی پیش ہوئی۔ اگر سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی پر اسمبلی میں بھرتیوں کا مقدمہ بن سکتا ہے کہ وہ قومی خزانے پر بوجھ تھا تو اب کسی اور پر یہ مقدمہ نہیں بن سکتا۔ کیا قومی اور صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے غریب ترین اراکین نے یک زبان ہو کر عوام کے پیسے اور قرضوں میں ڈوبے اس بدنصیب ملک کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا۔ کیا کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔

تازہ ترین