• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎ہمارے جیسے غریب کمزور ممالک اور انکے مسائل تو رہے ایک طرف اس گلوبل ویلیج میں جو ترقی یافتہ اقوام ہیں بلکہ ان سے بھی آگے عالمی طاقتیں ہیں ان کے بھی اپنی نوعیت و حیثیت پر محیط ایشوز اور چیلنجز ہیں۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی سپر پاور ہے اسکی قیادت پر فائز ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی سطح پر کیا کیا ایشوز درپیش ہیں؟ سب سے پہلے تو یہی کھٹکا یا خدشہ کیا کم ہے کہ انکے بالمقابل کوئی دوسری بڑی طاقت اٹھنے نہ پائے چین اگر ابھرتی طاقت ہے تو اس کا مکو وہیں کہیں مخصوص ایشیائی خطے میں ٹھپ دیا جائے۔ آج کی دنیا کتنی خوبصورت اور سیانی ہے کہ جس سے تنازعات یاخدشات ہوتے ہیں اس سے قطع تعلقی کرتے ہوئے روابط توڑے نہیں جاتے بلکہ خصوصی طور پر پہلو میں بٹھا کر بات چیت کی جاتی ہے، یہ نہیں ہوتا کہ بچوں جیسی فوری ’’کٹی کرلو‘‘ ‎انڈیا کے کتنے اختلاف ہیں چائنا کے ساتھ مگر سفارتی و تجارتی تعلقات کو دیکھو تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کتنی شکایات ہوں گی چینی صدر شی اور روسی صدر پیوٹن کے ساتھ لیکن وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی وہ جس شتابی سے اسرائیلی پرائم منسٹر، سعودی کراؤن پرنس اور انڈین پرائم منسٹر سے قریبی روابط میں آگے بڑھے ہیں، اسی تیزی سے چینی و روسی صدور سے گفتگو کرتے پائے جارہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی ترجیحات کی عین مطابقت میں اقدامات اٹھاتے ہوئے ذرا تساہل سے کام نہیں لے رہے۔ مارکو روبیو کی بحیثیت سیکرٹری آف اسٹیٹ تعیناتی کرتے ہی سب سے پہلے چائنا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے واشنگٹن میں کواڈ وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد کیا گیا ہے جس میں امریکا کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل ہیں یوں چائنا کو ایک طرح سے مضبوط پیغام بھیجا گیا ہے کیونکہ چائنا کواڈ الائنس کا مخالف ہے‎یہ چاروں ممالک کواڈ اتحاد کے تحت ایک کھلے مستحکم اور خوشحال انڈو پیسیفک خطے کی حمایت کیلئے پرعزم ہیں نومبر 2017میں ان چاروں ممالک نے انڈو پیسفک میں اہم سمندری راستوں کو کسی بھی اثر و رسوخ سے آزاد رکھنے کیلئے نئی حکمت عملی کی غرض سے کواڈ کے قیام کی دیرینہ تجویز کو عملی شکل دی تھی اور اس کا مقصد خطے میں چائنا کی بڑھتی طاقت کو روکنا تھا۔ 2024میں مودی اس کی سمٹ دہلی میں منعقد کروانا چاہتے تھے جبکہ صدر جوبائیڈن اسے ولمنگٹن میں کروانے پر مصر تھے اب انڈین پرائم منسٹر نے ٹرمپ کے آتے ہی یہ منوا لیا ہے کہ اس الائنس کی سربراہی کانفرنس اسی برس 2025میں انکی خواہش کے مطابق دہلی میں منعقد ہو گی ‎اسی طرح صدر ٹرمپ کو برکس کے حوالے سے بھی کھٹکا لگا ہوا ہے کہ یہ تمام طاقتور ممالک مل کر کہیں امریکی ڈالر کو چیلنج نہ کر دیں جس سے ڈالر کی عالمی حیثیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے چائنا اور رشیا اس حوالے سے اپنا عندیہ ظاہر بھی کر چکے ہیں، سو ٹرمپ اپنے اتحادیوں کے تعاون سے چاہے انہیں کسی بھی حد تک جانا پڑے اس تخیل کو عملی جامہ نہیں پہننے دیں گے اس سے آگے بڑھ کر وہ چائنا میں کام کرنے والی بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کو ’’چھڑی یا گاجر‘‘ دکھاتے ہوئے چائنا سے نکلنے پر مجبور کر دیں گے اس حوالے سے ایلون مسک ان کے دست و بازو بن کر اندر اندر کام دکھا رہے ہیں ایسی بڑی امریکی کمپنیوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جنہوں نے اپنا کاروبار بھاری تعداد میں چائنا سے انڈیا منتقل کیا ہے اس حوالے سے انڈین گجرات کو بزنس حب بنایا جا رہا ہے رشیا کو چائنا سے توڑنے کیلئے کیا حربہ استعمال کیا جا سکتا ہے ٹرمپ انتظامیہ پہلے سے ہی اس سلسلے میں سرگرم عمل ہے رشیا یوکرین جنگ بندی میں کسی ڈیل پر پہنچنے کیلئے رشیا کو کیا رعایتیں دی جاسکتی ہیں؟ ‎جہاں تک مسلم ممالک بشمول پاکستان کا تعلق ہے امریکا سے اس کے معاملات کا حقیقی دروازہ تو سعودی عرب ہی قرار پائے گا ‎جواں سال سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کو اس سلسلے میں امید بھری نظروں سے دیکھا جاسکتا ہے جنکے بائیڈن دور میں امریکا سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے کیونکہ جمال خشوگی کے قتل پر بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کے تحفظات، دو طرفہ تعلق میں نقصان دہ ثابت ہوئے، اس پس منظر میں کراؤن پرنس کو کئی معاملات میں چائنا کی طرف دیکھنا پڑا حالانکہ سعودی کنگڈم کا اپنے بانی شاہ عبدالعزیز بن سعود کے دور یعنی اپنے قیام 1931ء سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ قربت کا 8 دہائیوں پر محیط جو گہرا تعلق چلا آرہا ہے اس میں خواہ کتنے ہی نشیب و فراز آئے دراڑ کبھی نہیں آئی،آج کے مالدار وخوشحال اور ترقی کرتے سعودی عرب کے پیچھے پنہاں اصل طاقت امریکا ہی ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں صدارتی حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے دور حکومت کے فارن ٹور کا آغاز سعودی عرب سے کیا تھا اب بھی انہوں نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد میڈیا کے سامنے اس نوع کی تمنا ظاہر کی ہے کہ اگر سعودی عرب انویسٹمنٹ میں دلچسپی ظاہر کرے تو وہ اپنے بیرونی دورے کا آغاز ریاض سے کرنا چاہتے ہیں۔ کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے صدارتی عہدہ سنبھالنے پر جب ٹرمپ کو مبارکباد کا فون کیا تو دونوں رہنماؤں میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور ٹرمپ کی ہدایات پر فارن منسٹر کا حلف اٹھاتے ہی مارکو روبیو نے پہلی کال سعودی کراؤن پرنس ایم بی ایس کو کرتے ہوئے پریزیڈنٹ سے ہونے والی بات چیت کا فالو اپ کیا، ٹرمپ سے ایم بی ایس کی گفتگو تین حوالوں سے ہوئی مڈل ایسٹ میں امن و سلامتی، ٹیررزم کو روکنے کیلئے باہمی تعاون اور بے مثال معاشی خوشحالی کیلئے سعودی عرب کی 600ارب ڈالر پر محیط بھاری انویسٹمنٹ، واضح رہے کہ لبنان اور سیریا سے جس طرح ایران کی پسپائی ہوئی ہے اب امریکی تعاون سے ان ہر دو مسلم ممالک میں سعودی اثر و رسوخ بڑھنے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے سعودی فارن منسٹر کے حالیہ لبنانی دورے اور نئے شامی فارن منسٹر کی ڈیوس میں ہونے والی گفتگو کوملاحظہ کیا جا سکتا ہے، پاکستان کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ کراؤن پرنس کے ذریعے امریکا سے اپنے معاملات سیدھے کرے اور اپنی خارجہ پالیسی میں توازن لاتے ہوئے چائنہ کی طرف یک رخے جھکاؤ سے باز رہے ورنہ اسکی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے کھلاڑی کے ایشو پر دباؤ بھی آسکتا ہے۔

تازہ ترین