لارنس آف تھلیبیا (عریبیا نہیں ) احمد ندیم قاسمی کا ایک شاہکار افسانہ ہے، اُن کے بہت سے افسانوں کی طرح یہ افسانہ بھی گاؤں کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ جاگیردار کے بیٹے کا دوست گاؤں آتا ہے جہاں وہ دیکھتا ہے کہ کیسے جاگیردار اپنے مزارعوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتا ہے، اُنہیں غلیظ گالیاں دیتا ہے اور بغیر کسی وجہ کے بھری محفل میں جوتوں سے مار مار کر اُن کی کھال اُدھڑوا دیتا ہے۔ جاگیردار کے ملازم اور کمی کمین اِس سلوک کے عادی ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ جاگیردار کے سامنے دَم مار سکے۔ جاگیردار کا بیٹا، خدا بخش، بظاہر پڑھا لکھا ہے مگر اصل میں وہ بھی باپ کی کاپی ہے، اُس کا دوست دبے دبے الفاظ میں اِس جاگیردارانہ ظلم کے خلاف بات کرتا ہے مگر خدا بخش اُس کی بات ہوا میں اڑا دیتا ہے۔ ایک دن دونوں شکار پر نکلتے ہیں، خدا بخش کے پاس ایک بے حد قیمتی باز ہے جس کا نام لارنس ہے، اِس باز سے شکار کروانا اُس کا شوق ہے۔ راستے میں انہیں رَنگی نام کی لڑکی ملتی ہے جو اُس کے مزارع کی بیٹی ہے اور بے حد خوبصورت ہے، جاگیردار کی بیٹی سے بھی اُس کی اچھی دوستی ہے۔ خدا بخش اسے کہتا ہے کہ یوں شام کے وقت اُس کا اکیلے نکلنا ٹھیک نہیں ’’سورج ڈوب رہا ہے۔ چاند کی رات بھی نہیں ہے۔ اتنا لمبا اور ویران راستہ ہے اور چل کھڑی ہوئی ہے اس وقت، چل واپس۔ میں جا کر اپنی بہن کی بھی خبر لیتا ہوں کہ ایسا سلوک کیا جاتا ہے اپنی سہیلی سے۔ غریب سہی پر کیا انسان نہیں ہے۔ رنگی چل رنگی۔‘‘ یوں وہ رنگی کو حویلی لے آتا ہے۔ رنگی کے غریب ماں باپ کو اُس نے پہلے ہی مطمئن کر دیا تھا اور اُن مسکینوں کا خیال تھا کہ رنگی اگر رات کو حویلی میں رہ بھی لے گی تو ایسے جیسے فرشتوں کے گھر مہمان ہو کیونکہ جاگیردار کی بیٹی اُس کی پکی دوست ہے۔ اگلی صبح خدا بخش کو اُس کا ملازم ’کائنات کے سب سے بڑے حادثے‘ کی اطلاع دیتا ہے کہ کسی نے باز کی گردن مروڑ دی ہے اور وہ مرا پڑا ہے۔ یہ سن کر خدا بخش کا خون کھول اُٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ فور اً رنگی کو بلاؤ، اُس کا دوست پوچھتا ہے کہ ’’رنگی کو بلانے کا کیا مطلب؟‘‘ وہ جواب دیتا ہے کہ ہے ایک مطلب۔ ملازم بتاتا ہے کہ رنگی تو منہ اندھیرے ہی چلی گئی تھی۔ پھر یہ افسانہ اِن الفاظ پر ختم ہوتا ہے:’’ دیکھا میں نہ کہتا تھا؟ میرے باز کو اسی کمینی نے مارا ہے۔ رات وہ بار بار مجھےکہتی تھی کہ وہ مجھے مار ڈالے گی۔ میں نے کہا۔ لالیاں بازوں کو نہیں مار سکتیں نادان... اسی نے مارا ہے میرے لارنس کو...میں جانتا ہوں یہ قتل اسی بد ذات،کنگلی قلاش لڑکی نے کیا ہے۔ میں اس کی کھال ادھیڑ دوں گا..میں اس کی...‘‘
ندیم صاحب نے اِس افسانے میں جاگیردارانہ معاشرے کی منافقت اور درندگی کو جس طرح بے نقاب کیا ہے وہ اصل میں انہی کا خاصہ ہے۔ چونکہ اُن کا اپنا تعلق گاؤں سے تھا اور انہوں نے گاؤں کی زندگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا اِس لیے گاؤں کی منظر نگاری اُن کی تحریروں کا لازمی جُزو بن گئی۔ آج اِس افسانے کی یاد یوں آئی کہ بہت سے لکھنے والوں نے ’’لارنس آف تھلیبیا‘‘ کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور اُس میں استعمال کیے جانے والے استعاروں پر بات کی ہے، جیسے باز کی مدد سے لالی کا شکار کرنے کو جاگیرداروں کے شکار سے تشبیہہ دی ہے، اِسی طرح پڑھے لکھے طبقے کی بزدلی پر بھی طنز کیا ہے کہ یہ لوگ کھُل کر ظلم کے اِس نظام کے خلاف بغاوت نہیں کرتے جبکہ دوسری طرف رَنگی نے لارنس کی گردن مروڑ کر کم از کم اپنی حیثیت کے مطابق تو بغاوت کی۔ ظلم اور ناانصافی کو موضوع بنا کر نہ صرف ندیم صاحب نے بہت سی کہانیاں لکھیں بلکہ اُن کے علاوہ بھی دیگر ملکی اور غیر ملکی ادیبوں نے اپنے اپنے رنگ میں افسانے لکھے۔ اِن تمام کہانیوں اور افسانوں میں طاقتور طبقے کی درندگی اور سفاکی کا بیان تو ملتا ہے مگر کہیں سے بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ اِس ظلم کا شکار ہونے والا غریب اور لاچار شخص خود ہی اِس کا ذمہ دار ہے۔ دنیا کا اعلیٰ تخلیقی ادب ظلم کے خلاف مزاحمت اور بغاوت پر ابھارتا ہے نہ کہ مظلوم کو یہ درس دیتا ہے کہ پہلے وہ بی اے کا امتحان پاس کرے اور پھر گاؤں کے جاگیردار سے مذاکرات کے نتیجے میں انصاف حاصل کرے۔ ندیم صاحب اگر زندہ ہوتے تو میں اُن سے درخواست کرتا کہ وہ لارنس آف تھلیبیا کا دوسرا حصہ لکھیں اور بتائیں کہ لارنس کی گردن مروڑنے کے ’جُرم‘ میں خدابخش رنگی کو مزید کیا سزا دیتا ہے؟ کیا وہ اُس کا گینگ ریپ کرواتا ہے یا اُس کے ماں باپ کو زندہ زمین میں دفن کروادیتا ہے؟ یا دونوں کام کرتا ہے؟ جس رات خدابخش نے رنگی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور رنگی نے انتقام کے طور پر اُس کے باز کو مار دیا، اُس رات رنگی کے پاس اور کیا آپشن تھا؟ کیا اُس نے خدابخش کی منتیں نہیں کی ہوں گی، اسے اللہ رسول کے واسطے نہیں دیے ہوں گے، کیا مزاحمت نہیں کی ہو گی؟ یقیناً اُس نے یہ سب کچھ کیا ہوگا مگر خدابخش نے وہی کیا جو اُس کے مَن میں سمایا ہوا تھا۔ اِس کے بعد رنگی کے بس میں فقط یہی تھا کہ وہ بدلے میں لارنس کو مار دیتی اور اُس نے یہی کیا۔
آج جو لوگ فلسطینیوں کو یہ طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ’پنگا‘ کیوں لیا انہیں ندیم صاحب کا یہ افسانہ پڑھنا چاہیے۔ اور صرف ندیم صاحب کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا اعلیٰ لٹریچر پڑھنا چاہیے جو کسی بھی باضمیر آدمی کو ظلم اور ناانصافی کے خلاف بغاوت پر ابھارتا ہے۔ یا تو آج کے بعد ہمیں چاہیے کہ دنیا کے اعلیٰ ادب کا حوالہ دینا بند کر دیں کہ اُس کا سیاسی اور زمینی حقائق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ایسا ادب فُرصت کے لمحات میں محض ذہنی تلذُّذ حاصل کرنےکیلئے پڑھا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ بات ہضم کرنی مشکل ہے تو پھر اِس دلیل سے دستبردار ہو جانا چاہیے کہ جب تک مسلمان پڑھ لکھ کر بی اے پاس نہیں کر لیتے اُس وقت تک وہ امریکہ اور مغربی دنیا کی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کرنا بند کر دیں۔ یہ دو متضاد باتیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے فلسطین کو کھنڈر بنا دیا ہے مگر جو لوگ اِس کا ذمہ دار فلسطینیوں کو گردانتے ہیں، وہ خدا بخش اور رنگی میں سے دراصل رنگی کو قصور وار کہہ رہے ہیں کہ وہ رات گئے خدابخش کی حویلی میں رُکنے کیلئے کیوں گئی، اور اگر گئی تھی تو خاموشی سے خود کو خدابخش کے حوالے کر دیتی، بدلے کے طور پر لارنس کی گردن کیوں مروڑی اور جاگیردار کے بیٹے سے پنگا کیوں لیا؟ اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔