(گزشتہ سے پیوستہ)
آپ نے یہ ’’کہاوت‘‘ تو سنی ہو گی کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا میں اس میں ایک اور طرح کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جس نے منیر نیازی کو نہیں دیکھا اس کی باتیں نہیں سنیں اس کی شاعری نہیں پڑھی اس نے اپنی عمر کا کثیر وقت ضائع کیا شکل وصورت سے کسی فلم کا ہیرولگتا تھا شعر کہتا تھا تو ہمیں وہ مناظر دکھاتا تھا جو ہم نے پہلے نہیں دیکھے ہوتے تھے ۔اپنے ان محسوسات میں شریک کرتا تھا جو ہمارے لئے مسحور کن ہوتےتھے ایسے جملے کہتا تھا جو اس شخص کےساتھ چپک کر رہ جاتے تھے اس بلا کے سنجیدہ شاعر کی حس مزاح ہی کمال کی تھی منیر اپنے علاوہ کم کم کسی کو مانتا تھا ۔ایک دفعہ اس کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی ماضی کے ایک یادگار ادبی ڈیرے نیشنل سنٹر لاہور میں ہو رہی تھی صدارت فیض احمد فیض یعنی ادب کی بلند وبالا شخصیت کی تھی ان دنوں کشور ناہید سنٹرکی ڈائریکٹر تھیں اور سچی بات یہ ہے کہ اس ڈیرے کی رونق اور وقار اس وقت تک قائم رہا جب تک کشور اس کی ڈائریکٹر رہیں ۔میں منیر نیازی اس کے اعزاز میں منعقدہ تقریب اور فیض صاحب کی صدارت کی بات کر رہا تھا نیشنل سنٹر میں ایک کمی یہ تھی کہ اس میں ایک سو سے زیادہ افراد کی جگہ نہیں تھی چنانچہ بہت سے خوش قسمت لوگ ایسےتھے جنہیں کھڑا ہونے کی جگہ مل گئی تھی ان خوش نصیبوں میں ایک میں بھی تھا منیر نیازی تقریب کے دوران گاہے گاہے اسٹیج سے اتر کر کشور کے آفس میں چلے جاتے شاید ’’گرائپ واٹر ‘‘ پینے جاتے تھے اس آنے جانے کے دوران فیض صاحب اپنی صدارتی گفتگو کا آغاز کر چکے تھے اس وقت وہ کشور کے آفس میں تھے باہر نکلے تو دیکھا فیض صاحب صدارتی اظہار خیال کر رہے ہیں کھڑے ہوئے سامعین میں سے اسٹیج کی طرف راستہ بناتے ہوئے میرے قریب سے گزرے تو مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا اس ’’گھٹو‘‘ (ٹھکنے) نے میرے خلاف کوئی بات تو نہیں کی ۔اسلام آباد میں میرے عزیز مرحوم افسانہ نگار دوست محمد منشا یادکو منیرنے اپنی کتاب پیش کی یہ اعزاز بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا تھا تھوڑی دیر بعد منیر کی نظر اس پر پڑی تو وہ بےخیالی میں کتاب کی جلد کی نوک سے دانتوں میں پھنسی کوئی چیز نکال رہا ہے اس کے بعد زندگی میں جب کبھی میں نے منیر کے سامنےمنشایاد کا ذکر کیا اس نے کہا تم اس ب ۔۔ کا ذکر کر رہے ہو جو میری کتاب سے خلال کرتا ہے ایک دن ظہیر کاشمیری نے منیرسے کہا منیر جی چاہتا ہے چودھویں کاچاند ہو ساقی جام پیش کر رہا ہو ،مطربہ ہو ،منیر نے جواب میں کہا ’’ظہیر یہ سب کچھ ہو مگر تم نہ ہو‘‘
منیر نیازی متضاد رویوں کے حامل تھے ’’گرائپ واٹر‘‘ بھی پیتے تھے، جن دنوں شمع سینما کے علاقے میں رہتے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ صبح کوارٹر سپارہ کی تلاوت کرتے ہیں ایک دن میرے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہے تھے میں نے محسوس کیا کہ موٹر سائیکل ڈگمگا رہی ہے تب میں نے دیکھا کہ منیر دونوں ہاتھ فضا میں بلند کئے پورے جوش سے ’’محمدؐ محمد ؐ‘‘ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ منیر داتا صاحب کے مزار پر گئے اور جو دعا مانگی اس کے الفاظ یہ تھے ’’یااللہ محمد ؐ کے صدقے میری اور علی ہجویری کی لغزشیں معاف فرما‘‘ ہم میں سے شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ مزار پر اپنے علاوہ صاحب مزار کے لئے بھی دعا کی جاتی ہے ۔کبھی کبھی ایسی بات بھی کر دیتے تھے کہ اس ایک جملے پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مثلاً ’’حضرت عیسیٰ جن مردوں کو زندہ کرتے تھے وہ بعد میں ان کے بیری ہو جاتےتھے؟‘‘
فیصل آباد کے ایک مشاعرے میں انور محمود، خالد ، ریاض مجید اور میں بڑی گپ شپ میں مشغول تھے منیر بتانے لگے کہ ایک روز وہ اور صغریٰ گرمیوں کے دن تھے اور وہ صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک کونے سے سانپ نکل آیا اس کے بعد وہ سانپ کی خوبصورتی بیان کرنے لگے ’’کیا خوبصورت سانپ تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور وہ مستی کے عالم میں پھن پھیلائے ہوا کے دوش پر محو رقص تھا مگر عورتیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ صغریٰ نے ڈنڈا اٹھایا اور اسے ہلاک کر دیا۔ ریاض مجید اے کلاس شاعر ہونے کے علاوہ اے کلاس جملے باز بھی ہیں انہوں نے منیر کو مخاطب کیا اور کہا آپ کی اہلیہ نے سانپ اس لئےمار ڈالا کہ اس نے سوچا ایک گھر میں ایک ہی کافی ہے۔ منیر نیازی نے اپنی مخصوص ہنسی سے جملے کی داد دی اور پھر کیا حکیمانہ جملہ کہا ’’سانپ کو مارنا نہیں چاہئے اس کا زہر نکال کر اسے ’’گنڈویا‘‘ (کیچوا) بنا دینا چاہئے‘‘۔ ایک دفعہ منیر ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے امریکہ گئے مشاعرے کے اگلے روز ایک مقامی شاعر نے منیر سے کہا میرے ساتھ چلئے میں آپ کو شاپنگ کرانا چاہتا ہوں وہ انہیں ایک بڑے مال میں لے گیا اور شاپنگ شروع ہونے سےپہلے پریشانی کے عالم میں کہنے لگا ’’ اوہو میں تو بٹوہ ہی گھر بھول گیا میرا اے ٹی ایم کارڈ بھی اس میں تھا‘‘ اس پر منیر نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’ایک تم شاعر برے اوپر سے بٹوہ گھر بھول آئے ہو‘‘۔ ایک بار فیصل آبادکے ایک مشاعرے کے بعد میزبان نے لاہور منیر نیازی ،زاہد مسعودمرحوم اور قمر کو واپس لاہور چھوڑنے جانا تھا عین وقت پر انہیں کوئی مجبوری آن پڑی اور انہوں نے ایک اور ادب دوست کو یہ ذمہ داری سونپ دی ۔اس دن منیر صاحب کو بہت وافر مقدار میں ’’گرائپ واٹر‘‘ سپلائی کیا گیا تھا بلکہ زاد راہ کے طور پر بھی ساتھ دیا گیا۔جب گاڑی فیصل آباد کی حدود سے نکلی تومنیر نے اس ادب دوست کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’یہ وہی خبیث شخص ہے جس نے مجھے لےجانے سے انکار کیا‘‘ یہ سن کر اس شریف آدمی کا ر نگ غصے سے سرخ ہوگیا ،میں نے منیر صاحب کو سمجھایا نہیں یہ وہ نہیں ہے یہ تو آپ کا بہت مداح ہے ۔یہ سن کر منیر صاحب اچھا اچھا کہہ کر دوبارہ گرائپ واٹر کی طرف ’’رجوع‘‘ کر گئے۔ اس زمانے میں ا بھی موٹر ویز کا جال نہیں بچھا تھا چنانچہ لاہور کا فاصلہ بہت طویل تھا اس سفر کے دوران انہوں نے تین دفعہ اس خبیث آدمی کو مخاطب کیا اور یہی جملہ دہرایا کہ یہ وہی خبیث شخص ہے۔ بہرحال اس دوران منیر صاحب نے اپنے اندر ’’پانی‘‘ کی زیادہ سپلائی کا زور محسوس کرکے ایک جگہ گاڑی رکوائی اور ایک ڈھلان کے قریب بیٹھ گئے جب دس بارہ منٹ تک واپس نہ آئے تو میں اور زاہد گاڑی کے باہر آئے اور دیکھا ڈھلان سے ان کی ’’الٹ بازی‘‘ لگی ہوئی ہے ان کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہیں جس پر بے ساختہ میری ہنسی نکل گئی انہیں اٹھا کر کار میں بٹھایا اور بیٹھتے ہی مجھے مخاطب کرکے کہا تم ہنسے کیوں تھے اور ساتھ ہی کہا ویسے تم ٹھیک ہنسے تھے اور آخر میں ڈرائیور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے لے جانے سے انکار کیا تھا‘‘ (جاری ہے)