• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

وکٹوریہ پارک کو گوروں اور اینگلوانڈینز نے آباد کیا تھا۔ اس علاقے کو اس لئے منتخب کیا گیا تھا کہ مال روڈ اور لارنس گارڈن کے نزدیک اس سے خوبصورت اور کھلا علاقہ اور کوئی نہیں تھا۔ ویسے تو پنجاب یونیورسی اولڈ کیمپس، گورنمنٹ کالج، میو اسکول آف آرٹس (این سی اے) سے لیکر گورنر ہائوس اور مہاراجہ پٹیالہ کی شکارگاہ (موجودہ پی سی اور اس کے ارد گرد کا علاقہ) تک سارا علاقہ ہی بہت صاف ستھرا اور خوبصورت تھا۔ وکٹوریہ پارک اور رائل پارک بہت صاف ستھرے علاقے تھے۔ آج ہماری وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف جس ستھرا پنجاب کی بات کر رہی ہیں وہ ستھرا پنجاب انگریزوں کے دور میں تھا ۔وہ ستھرا لاہور گوروں کے دور میں تھا اب اگر حکومت پورا زور بھی لگالے تو کبھی ستھرا لاہور اور ستھرا پنجاب نہیں بنے گا۔ ارے بابا آپ انگریزوں کے چھوڑے ہوئے علاقوں کو ان کی اصل شکل و صورت میں لے آئیں تو بہت بڑی بات ہو گی۔ اب آپ وکٹوریہ پارک کو ہی لے لیں کہاں گئے اس پارک کے خوبصورت مکان اور خوبصورت بالکونیاں جہاں پر بیلیں ہوا کرتی تھیں کہاں گئی SONO PHONEکی وہ خوبصورت مدھر آواز جو کوئی اینگلو انڈین بجایا کرتا تھا، کہاں گئے وہ جوڑے جو مال روڈ پر میوزک پر ڈانس کیا کرتے تھے۔ کہاں گیا وہ زمانہ کہ جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اس مال روڈ کے فٹ پاتھ پرچہل قدمی کرتے تھے۔

ارے بابا سرے شام مال روڈ پر رات کی رانی، موتیے، گلاب اور چنبیلی کے پھولوں کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ اوپن ریسٹورنٹس ہوا کرتے تھے ہر مذہب کے لوگ آپ کو مال روڈ پر نظر آتے تھے وہ مال روڈپر مٹی کی بھینی بھینی خوشبو اور کار پوریشن کے ٹرکوں اور بیل گاڑی کے ذریعے پانی کے چھڑکائو کا منظر کہاں گیا۔ ارے ستھرا پنجاب کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے وہ ماحول لانا ہو گا۔ اس مال روڈ کو پلازہ مافیا نے تباہ وبرباد کر دیا ہے مذہبی اعتراضات نے اس شہر لاہور کا ماحول ہی بدل ڈالا ہے۔ ارے بابا مال روڈ پر بھی جگنو نظر آتے تھے لارنس گارڈن تو کبھی ایسا لگتا تھا جیسے چھوٹی چھوٹی خوبصورت لائٹیں پورے باغ میں جل اور بجھ رہی ہوں۔ اب جگنو لارنس گارڈن سے بھی بھاگ گئے یہ شہر لوہے، سریے، اینٹوں، دھوئیں اور آلودگی کا ایک بے ہنگم شہر ہے۔ تہذیب، شائستگی، ثقافت اور روایات تو کب کی ختم ہو چکی ہیں۔ یہ شہر اب ایک عجیب وغریب ہے جس کی سڑکوں پر چلتے ہوئے خوف آتا ہے ایسے ایسے چہرے نظر آتے ہیں جن کی آنکھوں میں نفرت اور غصہ ہے، وہ شہر جہاں کبھی آپ کو بے شمار اینگلو انڈین نظر آتے تھے آج پورے شہر میں ایک بھی اینگلو انڈین نہیں۔ لاہور کا وکٹوریہ پارک، کوئنز روڈ، میکلیگن روڈ، گڑھی شاہو بیڈن روڈ، لکشمی مینشن اور میسن روڈ پر آپ کو فراک پہنے اکثر اینگلو انڈین لڑکیاں نظر آتی تھیں۔ سائیکلیں چلاتی اورتانگوں میں بیٹھی ہم نے خود دیکھی ہیں۔ گورنمنٹ کالج اور کنیئرڈ کالج میں 60کی دہائی میں لڑکیاں (لیڈیز سائیکل) پر ان کالجوں میں جایا کرتی تھیں کنیئرڈ کالج کے سائیکل سٹینڈ پر بے شمار لڑکیوں کی سائیکلیں کھڑی ہوتی تھیں۔ لیڈیز سائیکل کا ڈنڈا نیچے کی طرف ہوتا تھا تاکہ لڑکیوں کو بیٹھنے میں دقت نہ ہو۔ کیا شہر تھا! ارے بابا پورے شہر میں صرف تین چار عورتیں گاڑیاں چلایا کرتی تھیں ان میں ہماری پھوپھی مس جلیس ناگی (بانی اسٹین گلاس ہوم اکنامکس کالج) بھی ہوتی تھیں ان کے پاس فییٹ گرے رنگ کی ہوتی تھی جس کا انجن پچھلی طرف ہوتا تھا ویسے تو کئی اور گاڑیاں بھی تھیں جن کے انجن پچھلی طرف ہوتےتھے واکس ویگن، اسکوڈا وغیرہ۔

بات ہو رہی تھی وکٹوریہ پارک کی وکٹوریہ پارک کے علاقے کا شمار انگریزوں کے دور تک لاہور کے خوبصورت علاقوں میں ہوتا تھا۔ انڈس ہوٹل (انفنٹن ہوٹل) سندھ انجینئرنگ کا بہت بڑا شو روم، ہیکو آئس کریم کا بار اور فیروز سنز، اسپورٹس کی دکان جاوید بھائی پرفیوم والے وغیرہ یہ وکٹوریہ ڈاک کے باہر تھے وکٹوریہ پارک کے اندر کئی قدیم مکانات تھے جو فن تعمیر کا نمونہ تھے۔ آج ہم بڑی مدت کے بعد وکٹوریہ پارک گئے یقین کریں اگر آج کسی انگریز، جس نے قیام پاکستان سے قبل کا وکٹوریہ پارک دیکھا ہو تو وہ فوراً کہے گا اس کا نام بدل دو یہ وہ وکٹوریہ پارک نہیں، ہمیں اس قدر دکھ ہوا کہ آج وکٹوریہ پارک میں جگہ جگہ گند، موٹر کاروں کی ورک شاپس، مختلف گودام تمام پرانے مکانا ت گرائے جا چکے ہیں جگہ جگہ اونچے پلازے اور گودام ہیں صرف دوپرانی عمارات نظر آئیں ان میں بھی گودام بن چکے ہیں یہ خوبصورت علاقہ جس کا کچھ حصہ ایک ٹیلہ نما ہے اب وہاں سڑک بن چکی ہے بڑی تلاش کے بعد بھی کوئی پرانا مکین نہ ملا کوئی گھنٹہ بھر ہم مختلف گلیوں میں پھرتے رہے اور اس پارک کو تلاش کرتے رہے جس کو کبھی ہم نے ٹوٹی پھوٹی صورت میں دیکھا تھا۔انڈس ہوٹل جب اس کا نام انفنٹن ہوٹل تھا تو وہاں بھارت کی نامور اداکارہ مینا شوری بھی آکر ٹھہرتی تھیں ایک مرتبہ وہ انفنٹن ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں تو لاہور فلائنگ کلب کا جہاز جسے ایک پائلٹ اور اس کا ساتھی چلا رہے تھے تو میٹرو ہوٹل کی چھت پر کھڑی اپنی دوست کو جو کہ لال رومال لہرا رہی تھی اور میٹرو ہوٹل کیبر ے ڈانسر تھی اس کو متاثر کرنے کے لئے جہاز کو بہت نیچے لےآئے اور جہاز میٹرو ہوٹل کی ایک برجی سے ٹکڑا کر چڑیا گھر جاگرا اور دونوں پائلٹ موقع پر مر گئے۔ لاہور میں اس طرح کئی سال پہلے پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہوسٹل کی لڑکیوں کو متاثر کرتے ہوئے لاہور فلائنگ کلب جہاز بھی گر گیا تھا مگر پائلٹ بچ گیا تھا اس طرح شہباز شریف کے گھر بھی لاہور فلائنگ کلب کا جہاز گر گیا تھا۔

1950-60تک مال روڈ کے کئی ہوٹلوں میں کیبرے ڈانس ہوا کرتا تھا ہم نے خود فلیٹز ہوٹل میں نیم عریاں کیبرے ڈانس دیکھا ہوا ہے ۔اس طرح مال روڈ کے اسٹینڈرڈ ہوٹل میں سلطانہ پشاوری نیم عریاں کیبرے ڈانس کیا کرتی تھی جو بعد میں قتل ہو گئی تھی، اس ہوٹل میں ڈانس دیکھنے کے لئے کوئی ٹکٹ نہ تھا البتہ چائے ضرور پینا پڑتی تھی ڈانسنگ فلور کےساتھ چائے پینے کی قیمت ڈیڑھ روپے تھی۔ اس طرح مغل ہوٹل لاہور میں بھی کبھی بہت ڈانس ہوا کرتا تھا منہاج بھی ایک منفرد اسٹائل کا ہوٹل تھا میکلیگن روڈ پھر شوبرا ہوٹل بڑا مشہور تھا ویسے تو لاہور میں بے شمار ہوٹل تھے جواب نہیں ہیں ان کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین