• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی تاریخ میں چند دن پہلے ایک ایسے صدرنے حلف اٹھایاہے جسکے اوپر 34 فوجداری مقدمات میں مجرم ہونے کا داغ ہے ، ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ انسانی میں قیادت اور اخلاقیات کے تعلق کا سوال ہمیشہ اہم رہا ہے اور جمہوریت کے اصولوں پر قائم معاشروں میں یہ سوال اسوقت مزید زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ جب ایک منتخب رہنما مجرم یا سزا یافتہ ہو۔ کیونکہ اسطرح کے واقعات نہ صرف قانونی، بلکہ اخلاقی، سیاسی اور سماجی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کا مجرمانہ ریکارڈ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنا بھی ایک ایسا ہی لمحہ ہے، جو نہ صرف امریکی جمہوریت بلکہ دنیا بھر میں جمہوری اقدار کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ڈونلڈ جے ٹرمپ کے خلاف امریکہ کی عدالتوں میں مختلف الزامات کے تحت کئی مقدمات چلتے رہے۔ جس میں خفیہ ادائیگیوں کا کیس، کاروباری فراڈ اور انتخابات میں مداخلت جیسے سنگین الزامات شامل تھے۔ ان مقدمات کا نتیجہ ان کے خلاف متعدد مجرمانہ سزاؤں کی صورت میں نکلا، جن میں سب سے نمایاں اور پہلی سزا انکو 34 فوجداری الزامات میں مجرم جانتے ہوئے دی گئی جس میں انہوں نے کاروباری ریکارڈز میں جعلسازی کی۔ انکو اس مقدمہ میں جیل یا مالی جرمانہ تو نہیں ہوا اور جج نے بھی اس ’’سنگین جرم‘‘ کی سنجیدگی کو اسطرح کم کیا کہ انکو جیل بھیجنے یا بھاری جرمانہ عائد کرنے کے بجائے، ان کو غیر مشروط رہائی دے دی

لیکن اس فیصلہ سے یہ ضرور ہوا کہ ان کے ریکارڈ پر ’’مجرم‘‘ کا لفظ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ثبت ہو گیا ہے، اسوقت تک کیلئے جب تک وہ اس ضمن میں کسی اعلیٰ عدالت سے اس سزا کو منسوخ کرنے کا حکم نامہ نہ لے لیں، اگر ہم امریکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں اور بھی ایسے کئی صدور گزرے جنکو انکے دور اقتدار میں مختلف قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے وہ پہلے واحد صدر ہیں جنہیں مجرمانہ سزا کے ساتھ عہدہ سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ تاریخی طور پر، صدر نکسن کو واٹرگیٹ اسکینڈل کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا لیکن انہیں کوئی مجرمانہ سزا نہیں دی گئی تھی۔ اسی طرح، بل کلنٹن کو مونیکا لیونسکی اسکینڈل میں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ بھی مجرمانہ سزا سے بچ گئے تھے۔ تیسری دنیا میں اسطرح کے واقعات معمول کی بات ہیں مگر ترقی یافتہ ملکوں میں اخلاقی معیارات وہ کسوٹی ہیں جن پر قیادت کو ہمیشہ پرکھا جاتا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کی مجرمانہ سزا کے باوجود انکا اور انکے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ سزا سیاسی مخالفت کا نتیجہ ہے، اور اس میں کوئی اخلاقی قدغن نہیں جو انتہائی مضحکہ خیز بات ہے لیکن ان کے مطابق، صدارت کیلئے اخلاقیات سے زیادہ اہم عوام کی حمایت اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن امریکی قانونی نظام کی بنیاد انصاف اور قانون کی بالادستی پر ہے۔ تاہم ٹرمپ کے اس کیس نے قانونی نظام کے غیر جانبدار ہونے پر بھی

سوالات اٹھا دیے ہیں۔اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ جمہوریت کی بنیاد عوام کی رائے پر ہوتی ہے، لیکن جب عوام ہی اخلاقیات اور قانونی تقاضوں کے درمیان فرق کو نظر انداز کر دیں اور ایسے رہنما کا انتخاب کریں تو اس ضمن میں عدالتیں کیا کرسکتی ہیں؟ ٹرمپ کے حامیوں کے نزدیک انکی سزا مخالف پارٹی کا ایک سیاسی ہتھکنڈاتھا، جبکہ ناقدین کیلئے یہ ایک اصولی شکست تھی۔ اس لئے اس مسئلے کا حل محض قانونی یا سیاسی میدان میں نہیں، بلکہ اخلاقی اور فلسفیانہ زاویوں میں بھی تلاش کرنا ہوگا۔انکے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک سزا یافتہ شخص کا صدر بننا قانون کی بالادستی کو کمزور کرتا ہے، جبکہ انکے حامی اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے معاملے نے یہاں امریکی عوام کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ اسے جمہوریت کی توہین سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اسے انکے حق میں ایک سازش کے طور پر دیکھتا ہے تاہم امریکہ میں اس سیاسی پولرائزیشن نے جمہوری اقدارپر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر بننا اور سزا یافتہ ہونے کے باوجود عوام کی حمایت حاصل کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو جمہوری معاشروں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ قیادت کے اخلاقی معیارات کیا ہونے چاہئیں۔ کیا قانونی الزامات کو سیاسی مخالفت کے تحت نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ کیا عوامی حمایت کسی بھی جرم سے بریت کیلئے کافی ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ صرف واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ سبق ہے جو آنے والی نسلوں کیلئے ہوتاہے۔ ناقدین کہتے ہیں ہمیں اپنی جمہوری اقدار کی حفاظت کرناہوگی تاکہ ہم ایک بہتر اور انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ تاہم ٹرمپ کی صدارت میں آنے والا دور اس بات کا مزید تعین کرے گا کہ جمہوریت میں قانون کا وزن کتنا ہے اور عوام کی رائے کیا معانی رکھتی ہے۔ اگر ایک مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والا صدر کامیابی سے حکومت کرتا ہے اور عوام کی خدمت کرتا ہے، تو یہ جمہوریت کیلئے ایک نیا معیار ہو گا۔ تاہم اگر اسکے برعکس ہوتا ہے، تو شاید یہ اس جمہوریت کی اقدار کے زوال کا آغاز ہوگا۔ ٹرمپ کی صدارت کی دوسری مدت میں عالمی تعلقات کا موضوع بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی’’پہلے امریکہ‘‘کی پالیسی سے انکو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جبکہ انکی قیادت میں امریکہ کے کئی روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بھی ابھی سے کشیدہ نظر آرہے ہیں۔ 2025 میں، دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ آیا کس طرح ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں امریکہ اور بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرنے میں کیا پیش رفت کرینگے۔ اسوقت امریکہ کو چین، روس، اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی امن اور معیشت کو تحفظ دیا جا سکے۔ عالمی سیاست میں امریکہ کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے، لیکن ٹرمپ کی صدارت نے اس کردار کو نئے چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔ مستقبل میں، دنیا کو ایک ایسی امریکی قیادت کی ضرورت ہے جو نہ صرف داخلی مسائل بہتر طریقے سے حل کرے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو بھی مثبت طور پر استوار کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا ایک ایسی قیادت کیلئے تیار ہے جو روایتی سیاسی معیار سے ہٹ کر نئی سمت میں جا رہی ہے؟ اس کا جواب وقت ہی دے گا۔

تازہ ترین