عوام نے ایسے جنرل بھی دیکھے ہیں جنھوں نے ملکی معیشت و ثقافت کو تباہ و برباد کیا، ایک جنرل نے تو اپنی ڈاکٹرائن کو ہر اخبار میں شائع بھی کروایا ، الیکٹرانک میڈیا پر اپنے نمائندے بٹھا کر رائے عامہ ہموار کی، مخالفین کو قید اور ملک بدر کروایا، چھ سال میں کلیدی فیصلوں کے باوجود جب اسکی ذاتی پسند پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے معاشی تباہی کے آکٹوپس نے ہر شعبے کو اپنے شکنجے میں جکڑلیا تو وہ منظر سے ہٹ گیا، اس کے جانے کے باوجود اس کی باقیات کا فیض نہ ٹلا، اس بے فیض نے قید ہونے سے پہلے تک ملکی معیشت کو برباد کرنے میں مکمل کردار ادا کیا، ان دونوں جنرلوں کے بعد قوم نے وہ جنرل بھی دیکھ لیا جس نے چار سال سے تباہ حال معیشت کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے حکومت کی بھرپور حمایت اس طرح سے کی کہ ہر شعبے میں بے جا مداخلت سے مکمل پرہیز کیا، قوم گواہ ہے کہ انتشاری تحریک کے لاڈلے کی ایماپر دو نمائندوں نے جنرل عاصم منیر کیساتھ ملاقات کر ڈالی ہے ، یہ وہ ملاقات تھی جس کیلئے اس جماعت کے سربراہ سمیت ہر رہنما نے تین سال میں ناک رگڑنے سے لیکر پیر پکڑنے تک تمام حربے آزمائے، فون کئے، فون کروائے، منتیں کیں، دھمکیاں لگائیں، ٹرولنگ کا طوفان اٹھا دیا ، بار بار 9 مئی برپا کئے، ریاست کیخلاف ہر وہ کام کیا جو کوئی اور کرتا تو اب تک پھانسی پا کر قبر میں پڑا ہوتا، تاریخ گواہ ہے کہ 24نومبر 2022سے لیکر 20جنوری 2025 تک جنرل عاصم منیر نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف بردباری کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں بلکہ تحمل میں انکا کوئی ثانی نہیں، اپنی تقرری کے 750 دنوں میں ایک دن بھی جنرل عاصم منیر نے کسی بھی سیاستدان کو نہیں للکارا، جنرل نے کسی سویلین کو اپنے عہدے کی طاقت سے نہیں ڈرایا، جنرل عاصم منیر نے کسی بھی اجلاس یا تقریب میں زبردستی کا مہمان خصوصی بننے کی کوشش نہیں کی، اقتدار کی راہداریوں میں اس امر کی کبھی بازگشت نہیں سنی گئی کہ جنرل کو اپنی تصویر شائع کروانے کا شوق ہے، صحافتی حلقوں نے کبھی رپورٹ نہیں کیا کہ جنرل نے کبھی اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ جنرل عاصم منیر نے اپنی جرنیلی کو سیاسی مداخلت کیلئے بھی کبھی استعمال نہیں کیا، جنرل عاصم منیر نے مکے لہرا کر کسی سیاستدان کو نہ کال کوٹھڑی میں بھیجا اور نہ کسی کو ملک بدر یا پھر دنیا بدر کیا، آج جتنے بھی سیاسی رہنما یا کارکنان جیلوں میں قید ہیں اسکی وجہ ان کے اپنے جرائم ہیں، انھیں سزائیں بھی عدالتیں سنا رہی ہیں اور بے گناہوں کو بری بھی عدالتیں ہی کررہی ہیں، عدالتوں پر کوئی نگران جج بھی مقرر نہیں کیا گیا، جنرل عاصم منیر نے کبھی اپنے حافظ قرآن ہونے کی مارکیٹنگ نہیں کی، انھوں نے نماز پڑھتے ہوئے تصاویر شائع کروا کر اپنی پارسائی بھی ثابت کرنیکی کوشش نہیں کی، جنرل عاصم منیر راتوں کو گاڑی لیکر نجی ملاقاتوں کیلئے اکیلے غائب ہوجانے کے چلن پر بالکل یقین نہیں رکھتے ہیں، آج ثابت ہوگیا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنیکی ایک بھی کوشش نہیں کی، قوم جان گئی ہے کہ جنرل عاصم منیر نے جمہوری قوتوں کو اپنے فیصلے خود کرنیکی فضا کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے، جنرل عاصم منیر پارسا ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو روز جزا کے دن اللہ نے کرنا ہے لیکن انکی عدم پارسائی کی کوئی خبر تو کیا کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث ہونیکی کوئی افواہ تک بھی منظر عام پر نہیں آئی۔ جنرل عاصم منیر سے موجودہ سیاسی ملاقات تو پی ٹی آئی کے مسلسل اصرار اور ذاتی خواہش پر ہوئی، آئی ایس پی آر نے اس ملاقات کی نہ پہلے اور نہ ہی بعد میں کوئی پریس ریلیز جاری کی، اوپر ملاقات ہوگئی ہے اور ملاقات کو سیاسی رنگ دیکر تحریک انصاف نے جس طرح چھلانگیں لگائیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعی ایک ٹولہ ہیں سیاسی جماعت نہیں ،انہیںکو ئی خوشی فہمی ہوگئی تھی کہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد ڈیل کے راستے کھل گئے ہیں، تحریک انتشار اور انکے حمایتیوں کیلئے صرف ایک پیغام ہے کہ آپے میں رہیں ، پاک فوج کے اجتماعی فیصلوں کے بعد ایک بار پھر ہمارا وطن محفوظ ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے ، معاشی طور پر مستحکم اور پُرامن پاکستان بنانے کی سوچ کس قدر خوش کن ہے۔