لاہور کا سب سے نمایاں تعارف علمی اور ادبی حوالہ ہے ، سال کے بارہ مہینے یہ شہر علمی ادبی ، سماجی اور ثقافتی رنگوں سے جگمگاتا رہتا ہے۔دسمبر جنوری اور فروری میں کانفرنسوں کی بہار جوبن پر رہتی ہے۔ اسی وجہ سے لاہور ادبی گہوارہ کہلاتا ہے ، فخر زمان ایک ایسی شخصیت کا نام ہے ، جس پر فخر کرنے کیلئے پنجاب کے پاس کئی وجوہات اور لوازمات ہیں ، برسوں پہلے فردِ واحد نے ایک تحریک بن کر سوئے اور بھٹکے ہوئے دھرتی باسیوں کے شعور پر دستک دے کر ان کو اپنی مٹّی سے جڑنے کی صلاح دی تو ہر سمت شور برپا ہو گیا ،مخالفین طرح طرح کے الزامات کے تیروں سے لیس ہو کر حملہ آور ہوئے، جھوٹے پروپیگنڈے سے ہراساں کرکے باز رہنے کا ہر حربہ آزمایا گیا مگر فخر زمان کی توانا آواز پہلے سے زیادہ بلند ہو کر گونجتی رہی ،فخر زمان کی دھرتی کی زبان ، رنگوں ، توانائیوں سےگہری شناسائی تھی ،وہ اْس سے باتیں کرتے تھے۔ اپنا حالِ زار سناتے تھے ، فخر زمان نے ساری روئیداد کہانی ، ناول اور شاعری میں لکھنی شروع کی۔لہجے کی للکار سے رکاوٹیں کھڑی کرنے والے بونے سہم سہم گئے، مگر دھرتی کی بات سنانے کیلئےایک بڑے پلیٹ فارم اور سرحدوں کے آر پار ادبی و ثقافتی سانجھ کی ضرورت تھی۔ یہی سب سوچ کرآج سے چونتیس پینتیس سال قبل دنیا بھر میں پھیلے پنجابی دانشوروں ، ادیبوں اور فنکاروں کا عالمی پنجابی گانگریس کے پلیٹ فارم سے پہلا عالمی اکٹھ منعقد کیا گیا، اکٹھ کامیاب رہا۔ زمین کی قدروں سے جڑے لوگوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی نے ہر سال یہ میلہ سجانے پر اکسایا اور آج تک مستقل مزاجی اور جرات سے پنجابی زبان و ثقافت کا علم سربلند رکھا ہواہے۔ہر سال کانفرنس منعقد ہوتی ہے جس میں علمی ادبی اور ثقافتی کے علاوہ زبان کو لاحق سماجی اور سیاسی مسائل بھی زیر بحث آتے ہیں۔ فخر زمان نے زبانی کلامی خالی دعوے کرنے کی بجائے لوگوں کو عملی طور پر مقصد سے جوڑ کر جس سفر کا آغاز کیا اس نے بڑی تعداد کو اپنی پہچان کے رستے پر دھکیل رکھا ہے ، وہ رفتہ رفتہ اپنے کھوئے اثاثے سنبھالنے پر خوش دلی سے آمادہ ہوتے جارہے ہیں۔ ایک فرد سے شروع ہونے والا سفر قافلہ بنا اور آج کئی جہتوں میں کامیابی کے جھنڈے نظر آتے ہیں۔ بہت سے نئے لوگوں کو ایسی کانفرنسیں منعقد کرنے کی سوجھی، گزشتہ دنوں چونتیسویں کانفرنس میں ہندوستان ، کینیڈا ، برطانیہ ، امریکہ اور یورپ سے 60 سے زیادہ ادیب ،شاعر ، صحافی، فنکار اور گلوکار تشریف لائے ، تین روزہ کانفرنس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
کئی سال سے پنجابی کانفرنس کے کلچرل پروگرام کی میزبانی کا اعزاز وجدان انسٹیٹیوٹ آف صوفی ازم اینڈ کلچر کے پاس ہے۔اس بار بھی الحمرا کے خوبصورت ہال میں عظیم الشان کلچرل پروگرام منعقد ہوا جس میں پنجاب کی شان صوفی اور لوک دانش کا پرچارک عارف لوہار ، عمران شوکت علی ، اکرم راہی جبکہ ہندوستان سے سریندر کور کی بیٹی خوبصورت گلوکارہ ڈولی، پنجاب کور کا اعزاز پانے والی سکھی برار ، روپی ڈھلوں ، ستنام پنجابی اور پمی بائی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، ڈولی، سکھی برار اور روپی ڈھلوں نے پرانے فلمی و لوک گیتوں کے علاوہ سٹھنیاں، بولیاں اور ٹپے ماہیے گا کر حاضرین کا دل موہ لیا،پورا ہال جھوم رہا تھا، انیتا شبدیش گزشتہ سال بھی اپنے منفرد ناٹک کے ذریعے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ اس برس اس نے گمشدہ عورت کے عنوان سے کا لکھا ناٹک پیش کیا، کئی کردار نبھاتے ہوئے مختلف تاثرات اور کیفیات کا اظہار کرکے انیتا نے خود کو ایک بڑی اور منفرد فنکارہ کے طور پر منوایا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے تک کھچا کھچ بھرا ہوا الحمرا ہال پوری توجہ اور گہرے انہماک سے سنجیدہ موضوع پر لکھے ناٹک میں ڈوبا رہا، وزیر اطلاعات و ثقافت عظمی بخاری نے بھی شرکت اور ناٹک کی بھرپور تعریف کی۔انھوں نے مہمانوں کے اعزاز میں شاندار کھانے کا بھی اہتمام کیا،ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمرا توقیر کاظمی نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے پنجابی زبان کو زندہ رکھنے میں سکھ سرداروں کی خدمات کو سراہا ، آخر میں رائے محمد خان ناصر کی صدارت میں مشاعرہ ہوا، جس میں دنیا بھر سے آئے نمایاں پنجابی شاعروں نے شرکت کی۔
جب سے مودی صاحب بر سر اقتدار ہوئے ہیں کیونکہ اس عرصے میں پاکستانی وفود کو ہندوستان کا ویزانہیں دیا گیا، دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ پاکستان میں ہونے والی کانفرنسیں اور بابا گرو نانک کے حوالے سے ہونے والی مذہبی تقریبات ہیں۔ ہماری اشتراک اور دوستی کی ہزار سالہ تاریخ کا تقاضا ہے کہ اس طرح کی کانفرنسز میں شرکت کیلئے پاکستانی مندوبین کو بھی ویزے دئیے جائیں کیونکہ محبت ہو یا دوستی ،یک طرفہ نہیں ہونی چاہئے۔