• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’مجھے اُس عورت پر ترس آتا ہے جس کے چہرے پر بدنامی کی کالک مل دی جائے اور وہ اسے مٹانے کے لئے داڑھی نہ رکھ سکے ۔ ‘ ‘ ایرانی انقلابی رہنما ڈاکٹر علی شریعتی ، 23نومبر 1933تا 18 جون 1977۔
خدا کا شکر ہے قندیل بلوچ منوں مٹی تلے ہمیشہ کے لئے دفن ہو چکی ہے ، اپنی قبر سے وہ کوئی ویڈیو یا تصویر اپ لوڈ نہیں کر سکے گی ، ہماری زندگی اس عورت نے عذاب بنا رکھی تھی ، اچھے بھلے ہم صاف ستھرے لوگ تھے اس قندیل نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، شکر ہے کہ ہمیں اس کی ویڈیوز اور تصاویر سے چھٹکارہ مل گیا، قندیل بلوچ کے قتل کے بعد یقیناً اب ہم ایک پارسا زندگی گزارنے میں کامیاب ہو جائیں گے ، دراصل یہ قندیلیں ہی ہیں جو ہمیں آوارگی پر آمادہ کرتی ہیں ورنہ ہم تو دودھ کے دھلے ہیں، ہمیں تو اسکول سے سیدھا گھر آنے کا کہا جاتا ہے ، قندیل ایسی عورتیں ہیں جو ہمیں گمراہ کرتی ہیں، خس کم جہاں پاک ۔ یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جو قندیل بلوچ کا قاتل ہے ، مسئلہ قندیل بلوچ کا نہیں مسئلہ اس مائنڈ سیٹ کا ہے۔یہ جو لوگ قندیل کے قتل پر سوشل میڈیا میں پارسائی میں لتھڑے ہوئے تبصرے کر رہے ہیں، اِن کی رالیں ٹپکتی تھیں اُس کی ویڈیوز دیکھ کر، محرومیوں کے مارے ہیں یہ لوگ جن کی زندگی اِس حسرت میں گزر رہی ہے کہ قندیل جیسی کوئی خوبصورت عورت کبھی اِن کا ہاتھ پکڑ کر مسکرا کر بات کر لے ، چونکہ یہ نہیں ہوا اور نہ کبھی ہونا ہے ، اس لئے قندیل ایک بری عورت تھی اور بری عورت نے قتل ہی ہونا تھا اس میں واویلا کس بات کا !
اس ملک میں نصف آبادی عورتوں کی ہے ، گویا دس کروڑ بچیاں ، لڑکیاں ،عورتیں اس ملک میں رہتی ہیں، اگر ملک کی بقیہ دس کروڑ آبادی پر مشتمل مرد حضرات اپنی سوچ کے مطابق یہ طے کرنے لگیں کہ کون سی عورت پارسا ہے اور کون ملک میں فحاشی پھیلا رہی ہے تو اس کا نتیجہ قندیلوں کے قتل کی صورت میں ہی نکلے گا ۔ قندیل کو اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا جبکہ باقی ’’بھائیوں‘‘ نے سوشل میڈیا پر اس قتل کا جواز فراہم کرکے اپنا اپنا حصہ ڈالا، حیرت ہے ان بھائیوں پر جو قندیل کی ویڈیوز تو دیکھتے تھے مگر اب اس کے قتل پروہ یوں تبصرے کر رہے ہیں جیسے پارسائی کی میراتھن انہوں نے جیتی ہو! لیکن مردوں سے زیادہ مجھے اس مرتبہ عورتوں کے رویئے پر حیرت ہوئی کیونکہ اپنے ہاں مردوں کا تو کام ہی عورتوں کو اُن کے لباس اور بناؤ سنگھار کی بنیاد پر ’’جج ‘ ‘ کرنا ہے ، البتہ کچھ خواتین نے سوشل میڈیا پر قندیل کے قتل پر جس قسم کے تبصرے کئے وہ ناقابل فہم ہیں ۔ لب لباب ان تبصروں کا یہ ہے کہ قندیل کا قتل تو نہیں ہونا چاہئے تھا ، میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ہوں، خدا اس کی مغفرت کرے .......مگر.......وہ کوئی رول ماڈ ل نہیں تھی ، وہ کوئی نیک عورت نہیں تھی ، اس کی اتنی عزت کیوں کی جا رہی ہے ، سینکڑوں لڑکیاں اس ملک میں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں انہیں کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ وہ فحش ویڈیوز بنا کر اپنا جسم نہیں بیچتیں !جن محترمہ نے یہ تبصرہ کیا ہے وہ خود گلوکارہ ہیں ، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ ان کا ذاتی فعل ہے، اپنی زندگی کا فیصلہ ہے ، وہ قابل احترام ہیں بالکل اسی طرح جیسے اس ملک کی باقی عورتیں قابل احترام ہیں مگر اسی ملک میں کچھ لوگوں کے نزدیک ننگے سر غیر مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ٹی وی پر گانےگانا فحش بات ہے اور ایسا کرنے والی خواتین کو وہ جو نام دیتے ہیں وہ ناقابل اشاعت ہے ، اب فرمائیے کیا کریں ؟ یہاں کون قندیل بلوچ ہو گا اور کون اُس کا بھائی بنے گا ؟ اگر ہم اسی طرح عورتوں کو ’’جج ‘ ‘ کرتے رہے تو کسی نہ کسی بھائی کی نظر میں کوئی نہ کوئی عورت قندیل بلوچ ہی ہوگی اور اس بات کا کہیں کوئی خاتمہ نہیں ہو سکے گا ۔
اب مجھے اس دلیل کا انتظار ہے کہ جناب والا ، آپ جو بہت بڑھ چڑھ کر قندیل جیسوں کی حمایت کرتے ہیں اگر آپ کی اپنی ماں بہن وہ سب کچھ کرے جو قندیل کرتی تھی تو کیا آپ برداشت کریں گے ؟ اس دلیل میں بنیادی نقص یہ ہے کہ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ مردوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ عورتیں جو کچھ کرتی ہیں ان کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ مرد ہی کر سکتے ہیں کیونکہ عورت چاہے جتنی بھی تعلیم یافتہ یا با شعور ہو جائے اسے یہ عقل نہیں ہو سکتی کہ اخلاقی طور پر کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ دوسرا نقص اس دلیل میں طرز تخاطب کا ہے ، مہذب معاشروں میں بحث کے طور طریقے یہ نہیں ہوتے جیسے اپنے ہاں لوگ محض اپنے نظرئیے کو درست ثابت کرنے کے لئے ذاتی حملے شروع کر دیتے ہیں اور تیسری خرابی اس میں یہ ہے کہ لفظ برداشت سے کیا ثابت کرنا مقصود ہے ، بالفرض اگر کوئی مرد کہے کہ ہاں میں نہیں برداشت کر سکتا تو پھر غیرت کے نام پر قتل جائز ٹھہرا ؟ لیکن دوسرے ہی لمحے آپ پینترا بدلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہیں میں تو اس قتل کے خلاف ہوں ، تو پھر اس دلیل سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ! مسئلہ یہ نہیں کہ قندیل بلوچ رول ماڈل تھی یا کوئی ہیرو تھی ،مسئلہ یہ ہے کہ اس معاشرے کی کروڑ پتی عورتیں جو خاوندوں کی لینڈ کروزرز میں پھرتی ہیں اور ہزاروں روپے کے جوڑے پہن کر قندیل کے پارسا نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہیں ، انہیں یہ حق کس نے دیا ہے ؟قندیل جس گھر میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی اور جیسے اس نے اپنے گھر کی کفالت کی، خدا نخواستہ اگر اِن کروڑ پتی عورتوں کو چار دن ایسے گزارنا پڑیں توان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں ۔
اس سارے معاملے میں تین باتیں البتہ خوش آئند ہیں ۔ پہلی ،سوشل میڈیا پر یہ تبصرے اپنی جگہ مگر لوگوں کی اکثریت نے اس قتل کی مذمت ہی کی ہے ،جن ’’شرفا ‘‘ نے سوشل میڈیاپر قندیل کے قتل کا جواز دینے کی کوشش کی ہے عوام کی اکثریت نے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری بات ، اس مرتبہ قدامت پسند تجزیہ نگاروں نے بھی اس قتل پر وہ سفاکی نہیں دکھائی جو ان کا طرۂ امتیاز ہے، یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے۔ اور تیسری بات، حکومت نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے جس سے موجودہ قانون میں وہ سقم دور ہو جائے گا جس کے تحت عورت کے قتل کے بعد اس کا والد یابھائی قاتل کو معاف کر دیتے ہیں اور وہ طنطنےکے ساتھ چھاتی پھلاکر معاشرے میں پھرتا ہے ۔ قندیل بلوچ ایک ’’بر ی عورت ‘‘ تھی اور ایک ’’غیرت مند ‘‘ بھائی نے اس کا قتل کیا ..... جن کے نزدیک یہ بات درست ہے وہ اُس دن کا انتظار کریں جب برے مردوں کا قتل غیرت مند بہنیں کریں گے ۔ اگر مرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عورت کو جیسے چاہے ’’جج‘ ‘ کرے تو پھر عورت کو بھی یہ اختیار ہونا چاہئےکہ وہ جس مرد کو برا سمجھے قتل کردے..... اگر ہم نے اسی سوچ پر عمل کرنا ہے تو اس سے اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو ملک کی آبادی کافی کم ہو جائے گی !
تازہ ترین