• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صفیہ نسیم

آج پھر رات کے بارہ بج گئے تھے، لیکن میاں صاحب کا کہیں اتا پتا نہ تھا۔ مَیں کمرے سے بالکونی تک دسیوں چکر لگا لگا کر تھک چُکی تھی۔ طرح طرح کے وسوسے الگ دل پریشان کررہے تھے۔ آخرکار، سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اُٹھایا اور نمبر ٹرائی کرنا شروع کردیا۔ موصوف کو موبائل کی مداخلت بڑی گراں گزرتی تھی، لیکن چوں کہ ٹائم بارہ کی حد پار کرچُکا تھا، لہٰذا مَیں نےہمّت پکڑی۔ کال مِل چُکی تھی، لیکن اُٹھانے کا تکلف ہی نہیں کیا جا رہا تھا۔ تنگ آکر موبائل ٹیبل پر پٹخا۔ ’’سات بجے سے غائب ہیں اور ابھی تک کچھ نہیں پتا، نہ ہی فون اُٹھاتے ہیں۔ 

لچھن تو ایسے ہیں، جیسے دوسری شادی رچا لی ہو۔‘‘ مَیں نے کڑھ کر سوچا۔ یہ کوئی ایک دن کی کہانی نہ تھی، ہر کچھ دن بعد یہی تماشا رُونما ہوتا۔ سودا لینے قریبی دکان پر گئے کہ دوست مل گیا یا کبھی دوستوں کے ساتھ چائے پینے ہوٹل پر بیٹھ گئے، تو بات چیت اتنی طویل ہوئی کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ شادی کا کھانا ختم تو بارہ بجے ہوگیا، لیکن یار دوستوں میں لگ کر رات گئے ہوش آیا کہ گھر بھی تو جاناہے۔ 

بس، ہر وقت دوست، دوست اور دوست…آٹھ سال ہوگئے، اِن دوستوں کو بُھگتتے ہوئے۔ چار بچّے ہیں، لیکن لاپروائی ایسی کہ جیسے اٹھارہ سال کے نوخیز ہوں، جنہیں ’’باہرکی ہوا‘‘نے بگاڑ دیا۔ غصّے میں ذہنی رَو تیزی سے اِدھراُدھر ڈول رہی تھی۔ شاید دماغ بھٹکتا ہی رہتا، لیکن بائیک کی آواز نے تسلسل توڑ دیا۔ سر اُٹھایا تو ڈھائی بج رہے تھے۔ غصّہ پھر عروج پر پہنچ گیا اور مَیں پوری تیاری کے ساتھ اُن کے استقبال کے لیے کھڑی ہوگئی۔

گھر سے کہہ کر تو یہی نکلا تھا کہ تھوڑی دیر تک آرہا ہوں۔ کمال صاحب سے ٹائم سیٹ کیا تھا، پلاٹ دکھانے کے لیے۔ رات کے نو بجے تک بالکل فارغ تھا۔ اسٹیٹ کی دکان بند کرتے ہوئے ہارون نے یاد دلایا کہ عبداللہ سے بھی مل لیتے ہیں۔ ابھی عُمرہ کرکے آیا ہے۔ 

وہاں سے نکلے تو راستے میں عرفان اور قاسم مل گئے۔ طے ہوا کہ ہوٹل چل کر کھانا کھاتے ہیں۔ کھانے، چائے کے ساتھ خوش گپیوں کی ٹھیک ٹھاک محفل کے بعد جیب سے موبائل نکالا تو بیسیوں مِس کالز موجود تھیں۔ 

گھر کی راہ لیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج تو خیر نہیں اور واقعی خیر تو بالکل روٹھی ہوئی تھی۔ لڑائی و تلخ کلامی تو پہلے بھی ہوجاتی تھی، لیکن آج صبا نے مجھے دوسری شادی کا الزام دیا، تو خُود پر قابو نہ رکھ پایا اور اُسے ایک زوردار تھپڑ جڑدیا اور اِس حرکت نے فساد کا ایسا دروازہ کھولا کہ جس نے ہماری ازدواجی زندگی ہی کو خطرے سے دوچار کر دیا۔ 

صبا میرے غیر متوقع ردِعمل کے بعد سے جیسے اپنے آپے ہی میں نہ تھی۔ صُبح اٹھی تو متورّم چہرہ رات کے تکلیف دہ واقعے کی عکّاسی کر رہا تھا۔ میرا دل یقیناً نرم پڑجاتا، لیکن صبا نے وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ سُنانے اور بد زبانی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اگرچہ مَیں نے جواباً خاموشی اختیار کی، لیکن غصّہ آگ بن کر میرے رگ و پے میں دوڑتا رہا۔

آج مجھے امّی کے یہاں جانا تھا۔ صُبح سے تیاریوں میں مصروف تھی، لیکن عمیر بستر سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ’’ہاں جب یار دوستوں کے ساتھ جانا ہو، تو صُبح ہی سے تیار ہوکر نکل جاتے ہیں۔‘‘ مَیں نے غصّے سے سوچا۔ دو دن سے ہماری بات چیت تو بالکل بند تھی، لیکن میرے بولنے پر بھی کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ اور اُن کی یہی خاموشی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ہوا یوں کہ کچھ دیر بعد عمیر گاڑی کی چابی لے کر سب کو آنےکا اشارہ کرتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھے۔ سب بچّے بھی گاڑی میں بیٹھ چُکے تھے، لیکن گود کے بچّے کو سنبھالتے اور کچھ کاموں کو عین وقت پر نمٹاتے ہوئےمجھے باہر نکلنے میں دیر ہوگئی۔ 

بس وہ دیرعمیر سے برداشت نہ ہوئی اور وہ سنساتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئے۔ میں اُن کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی۔ ’’کس بات کی سزا دے رہی ہو مجھے؟؟ نجات حاصل کرنا چاہتی ہو مجھ سے، تو جاؤ، طلاق دی مَیں نے تمہیں!!اِس کے بعد عمیر فوری طور پر مجھے باہر آنےکا کہتے تنتناتے ہوئے نکلتے چلے گئے۔ اور…مجھے یوں لگا، جیسے میرے اردگرد اندھیرا سا چھا گیا ہو۔

صبا اور بچّوں کو نانی کے گھر اُتار کر مَیں رُکا نہیں، بلکہ اپنے گھر ہی پلٹ آیا اور ایک تھکے ہوئے جواری کی مانند بستر پر ڈھے گیا۔ گزشتہ تین دنوں کی فلم میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھی۔ میرا گھر دیر سے آنا، صبا کا غصّہ و بدزبانی، میرا تھپڑمارنا اور پھربیسیوں مِس کالز مجھے یاد آئیں۔ یہ میری غلطی تھی کہ مَیں نے اُس کو نہیں بتایا کہ مَیں کہاں ہوں۔ باہر کھانا کھایا، لیکن اُس کو پوچھا تک نہیں کہ تم نے کھانا کھایا یا نہیں؟ اور اب یہ حرکت…میرے اللہ یہ کیا ہو گیا!!

آخر منصوری صاحب کا خیال آیا تو فوراً فون ملایا۔ ’’عمیر صاحب! اتنے پڑھےلکھے ہو کر کیا کربیٹھے؟ آپ کی بیوی اگر حالتِ طہر میں تھی، تو یہ طلاق تو واقع ہو چکی ہے۔‘‘ لیکن مَیں تو رجوع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’تو جاؤ، جا کے بیوی بچّوں کو لے آؤ، لیکن سُنو، اگرآئندہ بھی یہ حرکت دہرانی ہے، تو ایک بار ہی فیصلہ کر لو۔‘‘ ’’لیکن یہ مسائل ایسے نہیں کہ مَیں اپنا گھر ہی اجاڑ دوں۔‘‘ میرے کہنے پر بولے۔ ’’تو میاں! یہ بات پہلے کیوں نہ سوچی اور کیوں رب تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز کا نام لیا؟؟ اب توبہ کرو اور دوبارہ ازدواجی زندگی کی شروعات کرو۔

’’ارے بیٹا! میاں بیوی میں تو لڑائی ہوہی جاتی ہے۔ اتنا دل پرلینےکی کیا وجہ ہے؟‘‘ میرے روتے ہوئے چہرے سے امّی یہی سمجھیں کہ گھر سے نکلتے ہوئے کھٹ پٹ ہوگئی ہے، لیکن اُن کو کیا پتا…کہ میری تو دنیا ہی اجڑگئی ہے۔ نہ کھانا اچھا لگ رہاتھا، نہ پینا ہروقت وسوسے اور خیالات ذہن پر سوار رہتے۔

ایک دو دن کے بعد امّی ابّو دونوں میری حالت سے پریشان ہو گئے، حالاں کہ مَیں اپنے آپ کو نارمل رکھنے کی پوری کوشش کررہی تھی تاکہ والدین کے سوال و جواب سے بچ سکوں۔ کبھی تو جی چاہتا کہ سب بتادوں، لیکن اُن کےڈھلکے ہوئے کندھے اور چہرے پر گہری ہوتی تفکّر کی لکیریں مجھے ایسا کرنے ہی نہ دیتیں۔ مجھے احساس تھا اپنی بدزبانی کا، شوہر کی خاموشی کو الارم نہ سمجھ سکی۔ کتنی ناسمجھی کا ثبوت دیا۔ صبرو تحمّل کے خزانے سے منہ موڑا۔ اپنے ماں باپ کی تربیت کا ذرا بھی پاس نہ کیا۔

انہی سوچوں میں غلطاں آج تیسرا دن تھا۔ بچے کھڑکی سےباہر گارڈن میں مجھے کھیلتے نظر آرہے تھے۔ قریب ہی کرسیوں پر ابّو، امّی بھی بیٹھے تھے، شاید میرے بارے میں ہی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور پھر بچّوں کا شور بلند ہوا کہ ’’ابّو آگئے، ابّو آگئے۔‘‘مَیں نےسر اُٹھایا، تو عمیر مسکراتے ہوئے ابّو، امّی کو سلام کر رہے تھے۔

’’ارے… یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟؟‘‘عمیر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔ ’’رات کو سو نہیں پا رہی تھی۔‘‘ صرف اتنا ہی منہ سے نکلا۔ عمیر میری جانب سرخم کرتے ہوئے بولے۔ ’’اِدھر بھی یہی حال ہے۔ چلو، اب ساری باتیں ختم کرو اور گھر چلو، مَیں لینے آیا ہوں۔‘‘ میں مطمئن دل کے ساتھ اُٹھی تو پھر بولے۔ ’’تیاری کرلو، مَیں اتنے میں ابّو، امّی سے بات کرتا ہوں۔‘‘ ’’لیکن سُنیں! مَیں نے اُن کو ایسا کچھ نہیں بتایا ہے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے، بہت اچھا کیا۔‘‘ عمیر میری بات سمجھ کر اطمینان سےسر ہلاتے ہوئے باہر چلے گئے۔

آج ہماری خوش گوار ازدواجی کو بیس برس گزر چُکے ہیں، لیکن جب یہ واقعہ یاد آتا ہے، رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شُکر ہے، رجوع کا راستہ موجود تھا۔ وگرنہ تو… صرف پچھتاوے ہی رہ جاتے۔

ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘

غزلیں (شگفتہ بانو، لالہ زار، واہ کینٹ) نعت (سید شاہ عالم زمّرد اکبر آبادی) دسمبر سے متعلق اشعار (بابر سلیم خان، لاہور) میری پہچان اے وطن (ڈاکٹر علی اعظم) پُراسرار فلسطینی، اردو، رمضان(صبا احمد)زندگی، کڑے لفظوں سے دل کرچی کرچی کر دیا، پڑ گئے مجھ کو جان کے لالے، سب سے چھپا کر رکھتی تھی میرے لیے الگ حصّہ، مجھ کو کہنے والے فاسق (اقصیٰ) اے اہلِ فلسطین (ہادیہ ناز) شش سُنّت (بشریٰ صدیقہ، کراچی) تیرے لبوں پہ ہے یہ میری تمنّا (خالدہ علی ، لاہور) ہر ایک گھنٹی مفاد کی ہے (ثریّاطارق عبّاسی، اسلام آباد) فقط اچّھے وہ دُنیا میں لگے ہیں (احمد مسعود قریشی، ملتان) عید نامہ، الوداع ماہِ رمضان(ذکی طارق بارہ بنکوی، بارہ بنکی، اُتر پردیش، بھارت)۔