• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی ایک سال قبل ہی کی بات ہے، جب میری پوتی نے کہا’ ’ بابا! تقسیم ِہند درست فیصلہ نہیں تھا۔ بھلا فائدہ ہی کیاہوا،اتنی قتل و غارت گری کا؟ برسوں ساتھ رہنے والے علیحدہ ہوگئے۔ اپنے آباؤاجداد کی زمینیں، جائیدادیں چھوڑ کر آنا پڑا، اُن کی قبروں تک پر نہیں جا سکتے۔ خاندانوں کے خاندان بکھر گئے، زندگیاں رُل گئیں۔ مسلمانوں نے ایک ایسے شخص کے کہنے پرکیسے خود کو داؤ پر لگا دیا، جو خود مغرب سے تعلیم یافتہ تھا، انگریزی بولتا، سگار پیتا اور اسنوکر کھیلتا تھا۔ ‘‘ اُس کی باتیں مجھے نشتر کی طرح لگیں، ایسا لگا جیسے میرے نین پران ساتھ چھوڑ گئے ، زبان گُنگ ہوکر رہ گئی۔سمجھ ہی نہیں آرہاتھا کہ میری پوتی کے خیالات ایسے کیسے ہو سکتے ہیںاور مَیں کیسے اُسے پاکستان کی اہمیت سے آشنا کرواؤں۔

بات دراصل یہ ہے کہ میرا بیٹاکئی برس سے ایک مغربی مُلک میں سیٹل ہے۔ سو، اُس کے بچّے بھی وہیں پیدا ہوئے، اسی ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ آزادانہ میل ملاپ کی وجہ سے تقسیم کی اس لکیر کو اور اس مُلک کے قیام کو سِرے سے ہی غلط سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ اس مُلک کے قیام پر سوال اُٹھارہے ہیں، جسے بنانے اور حاصل کرنے میں ان کے پُرکھوں نے اپنی جانیں تک قربان کردی تھیں۔جانے کتنی ہی ماؤں ،بہنوں کی عِصمتیں لُوٹی گئیں، شِیرخوار بچّوں کو ماؤں کی گود سے الگ کر کے نیزوں میں پرو دیا گیا ۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے ہار نہیں مانی، علیحدہ وطن حاصل کرکے ہی دَم لیاکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو آزاد فضا میں سانس لیتا دیکھنا چاہتے تھے۔ 

مگر میرے پوتے ، پوتیاں مُلک سے باہر رہنے کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر مُلک تقسیم نہ ہوتا ،تو آج سب مل جُل کر رہ رہے ہوتے۔ جانے کتنے برسوں سے میرے اور اُن کے درمیان یہ مکالمہ، مباحثہ ہوتاچلا آرہا ہے۔ہر سال ان کے آنے سے قبل مَیں ٹھوس دلائل کے ساتھ پوری تیاری کرکے رکھتا ہوں، جب کہ منطقی دلائل کی کمی ان کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ اُن کے ہندو کلاس فیلوز کی معلومات اور بنیاد بہت مضبوط اور جامع دلائل پر مبنی ہے، جو پاکستانی طلبہ کی ذہن سازی یا با الفاظِ دیگر ’’برین واشنگ‘‘کر رہے ہیں۔ اب مجھے لگنے لگا ہے کہ مَیں یہ مکالمہ ہاررہا ہوں۔

اس برس بھی مَیں نے ان کی چُھٹیوں سے قبل یہ سوچ رکھا تھا کہ انہیں اقبال پارک لے جا کر بتاؤں گا کہ’’ بیٹا! باپ کبھی غلط نہیں کہتے۔‘‘ تو ہو سکتا ہے کہ شاید وہ سمجھ جائیں کہ جگہ اور ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے۔ اس برس جب وہ لوگ چھٹیوں میں پاکستان آئے، تو کشمیر کے حالات سے کافی پریشان اور غصّے میں تھے کہ کشمیر میں کرفیو لگے 6 ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چُکا ہے اور اب تو بھارت میں بھی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ آئے روز مساجد شہید کر دی جاتی ہیں۔ بزرگ ہوں یا بچّے، مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ان حالات کے پیشِ نظردنیا بھر کےمسلمانوں میں شدید غم وغصّہ پایا جاتا ہے، میرے پوتے، پوتیاں بھی غمگین اور افسردہ ہیں۔سردیوں کی ایک شام، موقع دیکھ کر مَیں انہیں اپنے ساتھ اقبال پارک لے گیا۔ 

وہاں پہنچ کر مجھے یوں محسوس ہوا، گویامَیں ’’ٹائم ٹریولنگ‘‘ سے کئی دَہائیاں پیچھے انسانوں کے اس سمندر میں پہنچ گیا ہوں، جہاں خُوب جوش و خروش سے نعرے لگائے جا رہے ہیںاور ایک چھوٹا سا بچّہ (مَیں)گُم ہوجانے کے خوف سے اپنے باپ کے کاندھوں پر چڑھ بیٹھا ۔وہ بچّہ حیران کُن نظروں سے اس سمندر کو تکے جا رہا ہےکہ اچانک وہ سمندرخاموش ہو گیا۔اب بس ایک ہی آوازگونج رہی ہے، ایک مضبوط اور مصمّم آواز…جسے لوگ دَم سادھے سُن رہےہیں۔ پر جانے وہ بولنے والا کیا کہے جا رہا تھاکہ اُس کی زبان ایک بچّے کو تو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ بچّہ اپنے باپ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہاں کیا کہا جا رہا ہے، پر اتنی خاموشی میں اس کی ہمّت ہی نہ ہوئی۔ وہ ڈرتا تھا کہ کہیں یہ دَم سادھے لوگ اس کی آواز سُن کر بپھر نہ جائیں۔ سو، وہ دیگر لوگوں کی طرح چُپ ہی رہا۔ آخر کار جب تالیوںسے پورا میدان گونجنے لگا، تواس نے اپنا منہ اپنے باپ کے کان کے ساتھ لگا کر کہا ’’ابّا…‘‘ ابھی ابّا نے ایک لمبی سی ’’ہوں‘‘ ہی کی تھی کہ اسٹیج سے دوبارہ آواز گونجی اور بچّہ پھر خاموش ہوگیا۔ جانے کتنا وقت بیت گیااور جلسہ تمام ہوا۔پھر گھر واپسی پر اس نے اپنے باپ سے پوچھ ہی لیا کہ ’’ابّا آپ کو مجمعے والے بندے کی بات سمجھ آرہی تھی؟ اُس کا اَن پڑھ باپ بھلا کیسے انگریزی سمجھ پاتا۔فوراً بولا، ’’نہیں پتّر، مجھے سمجھ تو نہیں آئی ،پر اتنا جانتا ہوں کہ بات ہمارے ہی فائدے کی تھی۔ ‘‘ اجلاس کے اگلے ہی دن کئی لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، تو یہ بات فائدے کی کیسے ہوئی؟ مگر باپ تو کبھی غلط نہیں کہتے، انہوں نے کہا بات فائدے کی ہے، تو بس ہے۔ ایک باپ تو کبھی اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتا، خود پھٹے ، پرانے جوتے پہنتا ہے، پر اولاد کو ہر سُکھ دیتا ہے، مجمعے سے خطاب کرنے والا شخص بھی تو ایک باپ ہی تھا، ’’قوم کا باپ‘‘ ، جو اس دن اپنی قوم کے فائدے کے لیے بول رہا تھا۔ اگر وہ مغرب سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہنا، ہمیںعلیحدہ وطن چاہیے، تو اس میں یقیناً ہمارا ہی فائدہ تھا۔

’’دادا، دادا! کن سوچوں میں گُم ہیں…؟؟‘‘ یک دَم ہی میری پوتی کی آواز مجھے واپس آج کے پاکستان میں لے آئی۔مَیں تواپنے بچّوں کو اقبال پارک اس لیے لے کر گیا تھا کہ ان کو بتا سکوں کہ یہ جو بادشاہی مسجد کے مینار ہیں، ان میں اور مینارِ پاکستان میں مکانی فاصلہ تو زیادہ نہیں، مگر زمانی لحاظ سے ان میں بہت بُعد ہے اور ان زمانوں میں مسلمانوں نے بے انتہا ظلم و ستم برداشت کیےہیں۔ مَیں انہیں بتانا چاہتا تھاکہ حصولِ پاکستان ہر گز آسان نہ تھا، پاکستان ناگزیر تھا، مگر اس سے قبل کہ مَیں کچھ کہتا،میری پوتی خود ہی گویا ہوئی ’’ دادا! آپ ٹھیک کہتے ہیں، ہمیں اللہ پاک کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیے کہ ُاس نے ہمیں ایک آزاد سر زمین کا باسی بنایا، ہمیں پاکستان سے نوازا ،جہاں ہم بلا روک ٹوک مساجد میں جا سکتے ہیں، اپنے دین پر عمل کر سکتے ہیں، جہاں صرف مسلمان ہی نہیں، ہر مذہب کے لوگ محفوظ ہیںاور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ دیکھیں ناں،بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیسا غیر انسانی برتاؤکیا جا رہا ہے۔ واقعی ،آج بھارت میں مقیم مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کررونا آتا ہے۔ 

سچ، مَیں تو مان گئی کہ قیامِ پاکستان کا فیصلہ بالکل درست فیصلہ تھا۔ بابائے قوم، محمّد علی جناح نے اتنے سال قبل جس دُور اندیشی کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ داد و تحسین ہے۔ نہ کبھی ایک باپ اپنی اولاد کے لیے غلط فیصلہ کرسکتا ہےاور نہ ہی قوم کے باپ نے ہمارے لیے غلط فیصلہ کیا۔ بابائے قوم کا مؤقف بالکل درست تھا۔‘‘یہ سُن کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، مَیں جوبات کئی برسوں سے اپنی اگلی نسل کو سمجھانا چاہ رہا تھا، وہ پڑوسی مُلک کی متعصب ، انتہا پسند حکومت اور اقبال پارک کے اس ماحول نے خودسمجھا دی۔ مَیں اپنے بچّوں کے سامنے سُرخ رُو ہوگیا کہ ’’باپ کبھی غلط نہیں کہتے۔‘‘ (محمّد مبین امجد، گوجر انوالہ)

تازہ ترین