• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشرت جہاں، لاہور

گلی میں سنّاٹا گہرا تو نہیں تھاکہ ہلکی سی ٹھک ٹھک کی آواز آرہی تھی۔ چار منزلہ عمارت کا ڈھانچہ کسی ویرانے کا منظر پیش کررہا تھا ،جس کے سامنے ایک بڑی سی ٹریکٹر ٹرالی کھڑی تھی اور ’’دُھول کے پُتلے ‘‘اسے خالی کرنے میںجُتے تھے۔ مَیں نے شانوں تک اونچی دیوار سے جھانک کر دیکھا۔ ہزار، دس ہزار، لاکھ! نہ جانے کتنی اینٹیں تھیں، جنہیں دیواریں بننا تھا۔ سپاٹ چہروں کے ساتھ، بوسیدہ رنگت والے کپڑوں میں ملبوس، وہ جاتی سردیوں سے بے نیاز کام میں مصروف تھے۔ 

مگر میری نگاہوں میں یہ منظر جچ نہیں رہا تھاکہ مَیں تو کِھلتے پھولوں پر منڈلاتے بھنورے ، جگنو دیکھنے کا متلاشی تھا۔ نگاہ اوپر اُٹھائی،آسمان بھی چاند، ستاروں سے خالی تھا۔ گویاساری اُمنگیں، ترنگیں گُم ہوچُکی تھیں۔ شاید اگلے دن نئی صبح کا سورج انہیں ڈھونڈ کر طلوع ہوتا۔ رات ،مہربان ماں کی طرح زمین کے ناآسودہ غم زدوں کو تھپک تھپک کر سُلانے کو تیار تھی اور مَیں کمرے میں اُداس بیٹھا تھا۔ بہت بے چینی ہونے لگی اوردل پریشان سا ہو گیا۔

صبح اُٹھا ،توبلند قہقہوں ، قلقاریوںنے اپنی جانب پوری طرح متوجّہ کرلیا، ’’یہ تو وہی آوازیں ہیں، جن کا مَیں منتظر تھا۔‘‘ میرے دل سے آواز آئی اورمَیں کمرے سے نکل کر باہر جھانکنے لگا۔ میرے بھنورے، جگنو(چند بچّے) ٹرالی کے اوپر چڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔ یقیناً بڑا بچہ ڈرائیور کی اکلوتی سیٹ پر بیٹھنے میں کام یاب ہوچُکا تھااور بیٹھتے ہی بڑا سا سیاہ اسٹیئرنگ جوش سے گھمارہا تھا۔ 

دائیں بائیں اور سامنے کے رُخ پر بھی بچّے چڑھتے ہوئے خوش ہورہے تھے۔ بڑے بچّے، چھوٹے بچّوں کو کمر سے پکڑ کر اُتارکر ان کی جگہ لینے کی کوشش کر رہے تھے،لیکن چھوٹے بچّے زیادہ پُھرتیلے تھے۔ نیچے گر کر وہ پھر سے اُٹھ جاتے اور مکوڑوں کی طرح ٹرالی پر چڑھ جاتے۔ مَیں دل چسپی سے یہ تمام مناظر دیکھ رہا تھا۔ گلی ان کی ہنسی اور دمکتےچہروں سے جگمگانے لگی۔ ’’دھول کے پُتلے‘‘ بھی خُوب ہنس رہے تھےاور بچّوں کے کھیل سے محظوظ ہو رہے تھے۔

’’کیا کر رہے ہو تم لوگ، کیا حال بنا لیا ہے؟بالکل مزدور لگ رہے ہو۔‘‘ اچانک ہی ایک آواز نے سارا منظر دُھندلا دیا۔ آوازکسی ایک بچّے کی ماں کی تھی، جو اپنے بچّے کو مزدوروں کے ساتھ دیکھ کر خفا ہو رہی تھی۔ پھر ایک کے بعد ایک ماں آنے لگی اور بچّوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ایک ماں نے اپنے دو بچّوں کو سات بچّوں کے جھرمٹ سے الگ کیا۔ 

پھر دوسری نے بھی اپنے بچّوں کی چھانٹی کی۔ بچّے، مائوں کی گرفت سے بچنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن ماؤں نے بچّوں کی ایک نہ سُنی اور چیل کی طرح جھپٹا مار کراُنہیں ساتھ لے گئیں۔ ’’دُھول کے پُتلے‘‘ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوچُکے تھے۔گلی میں پھر سے گہرا سناٹا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے کی جیتی جا گتی گلی، ویرانے کا منظر پیش کر رہی تھی۔

تازہ ترین