• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست دانوں کو ’’غیر جانب دار پولیس‘‘ صرف اپوزیشن ہی میں اچھی لگتی ہے (اٹھارویں قسط)

پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی
پاکستان پولیس سروس کے ’’رول ماڈل‘‘، سابق آئی جی ، ذوالفقار احمد چیمہ کی کہانی، خُود اُن کی زبانی

مَیں رحیم یارخان کے ہوائی اڈے پر اُترا، تو شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ جہاز کی سیڑھیوں کے سامنے کچھ پولیس افسران لائن بنائے کھڑے تھے، جن میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پہچانتا تھا۔ ایک ڈی ایس پی پہلے مجھے غور سے دیکھتا رہا، پھر میری طرف آیا اور سیلیوٹ کیا۔ مَیں سمجھ گیا کہ یہ سارے لوگ پولیس کے نئے ضلعی سربراہ کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔ 

مَیں نے سب سے باری باری مصافحہ کرنے کے بعد کہا۔ ’’آپ جاکر اپنا اپنا کام کریں، مَیں جلد ہی آپ کےساتھ میٹنگ کروں گا۔‘‘ اور پاس کھڑی جیپ میں بیٹھ گیا، جس کا ڈرائیور مجھے ریسٹ ہاؤس لے گیا۔ (ایس پی ہاؤس میں ابھی میرے پیش رورہائش پذیر تھے) مَیں ریسٹ ہاؤس پہنچا ہی تھا کہ اردلی نے اطلاع دی۔ ’’سر! اے ایس پی، صادق آباد ملنے آئے ہیں۔‘‘ مَیں نےکہا، بلاؤ۔ 

نوجوان اے ایس پی نے سیلیوٹ کیا، تو مَیں نے غور سے اُس کی نیم پلیٹ دیکھی، جس پر لکھا تھا۔ ’’اے ڈی خواجہ‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’سندھ میں بھی خواجہ صاحبان ہوتے ہیں؟‘‘اُس نے وضاحت کی۔ ’’سر! میرا تعلق اسمٰعیلی خوجہ فیملی سے ہے۔‘‘ مَیں اُس سے صادق آباد سے متعلق پوچھتا رہا اور وہ مجھے مختصر، ٹودی پوائنٹ جواب دیتا رہا۔ 

اُس کے چہرے پر معصومیت اور باتوں سے ذہانت جھلکتی تھی۔ یہ اے ایس پی، اللہ ڈینو خواجہ کے ساتھ (اے ڈی خواجہ، جو بعد میں آئی جی سندھ بنے اور ایک دیانت دار، قابل افسر کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں) میری پہلی ملاقات تھی۔ اُس وقت وہ ضلع رحیم یارخان کے سب ڈویژن، صادق آباد کے اے ایس پی تھے۔

میری تعیّناتی کےاگلے روز کسی شادی کی تقریب میں وزیرِاعلیٰ پنجاب، غلام حیدر وائیں رحیم یار خان آئے۔ پروٹوکول کےمطابق ڈی آئی جی بہاول پور، رفیق حیدر (جو بعد میں پنجاب کے آئی جی بھی بنے) بھی رحیم یارخان آئے۔ چیف منسٹر کے جانے کے بعد وہ میرے دفتر تشریف لے آئے، جہاں اُنہوں نے ضلعے کے تمام افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے نئے ایس ایس پی صاحب لاہور سے آئے ہیں، اِن کی بڑی اچھی شہرت ہے، لہٰذا میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اِن سے تعاون کریں۔‘‘ 

ڈی آئی جی صاحب نے مجھے بھی خطاب کرنے دعوت دی تو مَیں نے کہا۔ ’’سر! آج آپ کا خطاب ہی کافی ہے۔‘‘ کچھ دیر بعد ڈی آئی جی صاحب رخصت ہوگئے، تو مَیں نے پولیس افسران کو مخاطب کیا۔ ’’ڈی آئی جی صاحب نےنہ جانے کیوں ’’تعاون‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، مجھے آپ لوگوں سے ووٹ نہیں لینے کہ تعاون مانگوں، مَیں ضلعے کا کمانڈر ہوں اورآپ لوگ میرے subordinates کی حیثیت سے میرے احکامات پرعمل درآمد کے پابند۔ 

اِس لیے اچھی طرح سُن لیں کہ جو میری پالیسی اوراحکامات پردل وجان سے عمل نہیں کرے گا۔ وہ میری ٹیم میں نہیں رہے گا، اُسے نکال باہر کیا جائے گا۔ اچھا کام کرنے والے کو انعام ملے گا اور حرام خوروں، کام چوروں کو محکمے میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔‘‘ مَیں نے دس پندرہ منٹ میں اُنہیں اپنی ترجیحات بتائیں اور فارغ کردیا۔

رحیم یارخان، جنوبی پنجاب کاسب سے بڑا ضلع ہے، ملتان سے بھی بڑا۔ کیوں کہ اُسے کاٹ کر کوئی دوسرا ضلع نہیں نکالا گیا اور یہ اپنی اصل حالت میں intact ہے۔ چار بڑی تحصیلوں پر مشتمل ایک بھرپور اور توانا ضلع۔ رحیم یار خان کے علاوہ صادق آباد (جو پنجاب کی آخری تحصیل ہے اور جس کی سرحدیں سندھ اور بلوچستان سے ملتی ہیں) اور خان پور اِس کی بڑی تحصیلیں ہیں، جب کہ لیاقت پور قدرے چھوٹی تحصیل ہے۔ 

نہری پانی کی دست یابی سے زمین انتہائی زرخیز ہے، کپاس کے پودوں کا قد، کماد سے بھی اوپر نکلتا ہے۔ یاد رہے، کماد کی بلندی گردن اونچی کرکے دیکھنی پڑتی ہے۔ آم کے بڑے بڑے باغات ہیں، پنجاب کے باقی اضلاع میں تو تقسیم در تقسیم کے بعد بڑی جاگیریں ختم ہوچُکی ہیں، لیکن جاگیرداریاں اگر کہیں بچی ہوئی ہیں اور فیوڈل ازم پورے طمطراق سے کہیں موجود ہے، تو وہ صرف رحیم یار خان ہی میں ہے، جہاں اب بھی پانچ پانچ سو مربعوں کے مالک موجود ہیں، سب سے بڑے زمیں دار جمال دین کے، مخدوم احمد محمود ہیں، جن کے والد مخدوم حسن محمود بہاول پور صوبے کے وزیرِاعظم رہے تھے اور 1970ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی تھے۔ 

جنوبی پنجاب اور جھنگ کے کچھ بڑے زمیں داروں نے جاگیروں کے ساتھ ساتھ روحانی گدیوں کی مجاوری بھی سنبھال رکھی ہے، جن میں احمد محمود، شاہ محمود قریشی، یوسف رضا گیلانی، عابدہ حسین اور فیصل صالح حیات نمایاں ہیں، یعنی یہ جاگیردار بھی ہیں اور گدی نشین یعنی ’’پیر‘‘ بھی۔

علّامہ اقبالؒ نے درست کہا تھا ؎ ’’قُم باذنِ اللہ کہہ سکتے تھےجو، رخصت ہوئے… خانقاہوں میں مجاوررہ گئے یا گورکن۔‘‘ غریب، ناخواندہ لوگ عیاش اور شراب و شباب کے رسیا جاگیرداروں کے پاس جاتے ہیں، تو جُھک کر ملتے ہیں۔ کچھ گھٹنوں کو اور کچھ پاؤں چھوتے ہیں۔ اپنی خون پسینے کی کمائی سے نذرونیاز بھی پیش کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں۔ 

مطلب، جب تک جہالت رہے گی، اِن مجاوروں کے موج میلے قائم رہیں گے۔ حضرتِ اقبالؒ پھر یاد آتے ہیں۔ حکیم الامّت ہونے کے ناتے قوم کی تین بیماریوں کی یوں تشخیص کرگئے تھے ؎ ’’باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری… اے کُشتۂ سلطانی ومُلّائی و پیری۔‘‘ برصغیر کا مسلمان آج بھی آمریت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور نیم خواندہ مُلّا، بدکردار پیر اُس کا استحصال کررہے ہیں۔ 

رحیم یار خان میں مخدوموں کے علاوہ قریشی، رئیس اور لغاری بھی بڑے جاگیردار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مخدوموں میں سے مخدوم شہاب الدّین مرکزی وزیر رہے۔ وہ ایک کیس میں اٹک کر رہ گئے، ورنہ یوسف رضا گیلانی کی جگہ وزیرِاعظم ہوتے۔ 

صادق آباد تعیناتی کے تیس برس بعد… مَیں اور اے ڈی خواجہ پولیس اکیڈمی میں اکٹھے ہوئے
صادق آباد تعیناتی کے تیس برس بعد… مَیں اور اے ڈی خواجہ پولیس اکیڈمی میں اکٹھے ہوئے

مخدوم شہاب الدین بھی مجھ سے ملنے آتے تھے اور پولیس کی کارکردگی اور غیر جانب داری کو بہت سراہا کرتے تھے۔ ہمارے سیاست دان جب اپوزیشن میں ہوں، تو اُنہیں غیرجانب دار پولیس اورانتظامیہ بہت بھلی لگتی ہے۔ یہ اُس سے کسی محبوبہ کی طرح پیار کرتے ہیں، مگر جب اقتدار سنبھال لیں، تو پھر اُنہیں یہ غیر جانب داری کا لفظ بھی زہر لگنے لگتا ہے کہ اُس وقت انہیں دیانت دار یا غیر جانب دار نہیں، وفادار اور تابع دار افسران درکار ہوتے ہیں۔

رحیم یارخان میں آج جہاں لہلہاتی فصلیں اور سرسبزو شاداب باغات ہیں، ستّر اسّی سال قبل یہاں ریت کے سوا کچھ نہ تھا۔ پنجاب کے کچھ دُور اندیش زمیں داروں نے اِس ریگستان سے کوڑیوں کے بھاؤ زمینیں خریدیں، جونہریں نکلنے سے آباد ہوگئیں۔ زمینیں سونا اُگلنے لگیں اور ریگستان، چمنستان میں بدل گیا، باہر سے آکر زمینیں آباد کرنے والوں کو یہاں ’’آباد کار‘‘ کہا جاتا ہے اور آباد کاروں میں زیادہ تر آرائیں، جاٹ اور گوجر شامل ہیں۔ 

رحیم یارخان شہر میں آرائیں برادری کی اکثریت ہے، اِس لیے اکثر آرائیں برادری کا امیدوار ہی ایم این اے منتخب ہوتا ہے، اُس وقت مسلم لیگ ن کی طرف سے میاں عبدالخالق ایم این اے تھے۔ 1993ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، تو وہاں سے ایک جاٹ ایم این اے بنا اور پھر وزیرِ مملکت بن گیا۔ گوجر برادری اگرچہ اقلیّت میں ہے، لیکن یہ پڑھے لکھے اور پروگریسیو زمیں دار ہیں۔ کچھ بزنس کی طرف چلےگئے، اِس لیے دوسروں سے زیادہ مال دار ہونے کی بناء پر ایک آدھ سیٹ یہ بھی جیت لیتے ہیں۔ 

گوجربرادری کی سب سے معروف شخصیت چوہدری محمّد اقبال (مرحوم) تھے، جن کا تعلق ضلع منڈی بہاؤالدین کے قصبہ چیلیانوالہ سے تھا، مگر بھلے وقتوں میں اُنہوں نے بھی وہاں کافی زمین بنا لی اور وہاں کے بڑے اور متمّول زمیں داروں میں شمار ہونے لگے۔ چوہدری صاحب پرانی وضع قطع اور پرانی ریتوں روایتوں کے آدمی تھے۔ میری تعیّناتی کے چند روز بعد مجھ سے ملنے میرے دفتر تشریف لائے۔ 

تھوڑی دیر بعد کہنے لگے، ذرا علیحدگی میں ایک بات کرنی ہے۔ مَیں اُنہیں ریٹائرنگ روم میں لے گیا، تو کہنے لگے۔ ’’مَیں نے اپنے منیجر سےکہہ دیا ہے، وہ آپ کے بنگلے پر ایک سجری سُوئی ہوئی بھینس پہنچا دے گا۔‘‘ مَیں نے قہقہہ لگا کے چوہدری صاحب کا شکریہ ادا کیا اور معذرت کرکےاُن کی بزرگی کا احترام کرتے ہوئے کسی ناراضی کا اظہار کیے بغیر رخصت کردیا۔ 

اُن دنوں چوہدری اقبال صاحب کے صاحب زادے جعفر اقبال وہاں سے ایم پی اے منتخب ہوکر صوبائی کابینہ میں وزیرِصحت تھے۔ مَیں اِس سے پہلے پاک پتن، مظفّر گڑھ اور بھلوال میں اے ایس پی رہ چُکا تھا، راول پنڈی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں سپرنٹنڈنٹ پولیس کے طور پر کام کررکھا تھا، مگر کہیں بھی یہ ذات، برادری والا تعصب نظر نہیں آیا۔ 

یہ پہلا ضلع تھا، جہاں کے لوگ برادری اِزم کے شدید تعصب میں جکڑے ہوئے نظر آئے۔ ہمارے والد صاحب برادری اِزم کو غیر اسلامی خیال کرتے اور سخت ناپسند کرتے تھے۔ سو، بزرگوں کی تربیت کے سبب مجھے بھی ایسے تعصبات سے سخت نفرت تھی، جب کہ اِس ضلعے میں خاصے پڑھے لکھےاوراسلامی ذہن کے افراد، حتٰی کہ جماعتِ اسلامی کے کچھ ارکان کو بھی برادری ازم میں مبتلا دیکھا، تو بہت دُکھ ہوا۔

ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم (جن سے اُس وقت بھی نیازمندی تھی اور جن کا اپنا تعلق چیلیانوالہ کی گوجر برادری سے تھا) جیسے اسکالر بھی مجھے رحیم یارخان جانے سے پہلے گوجر برادری کا خیال رکھنے کا کہتے رہے، تو مَیں حیران رہ گیا۔ مجھے یاد ہےکہ رحیم یارخان کا چارج سنبھالنے کے دوسرے روزصُبح سب سے پہلے اردلی نے جو کارڈ دیا، وہ وائس چیئرمین ضلع کاؤنسل کا تھا۔ مَیں نے بلوا لیا۔ 

رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں شکایات سُنی جا رہی ہیں۔ بائیں جانب اسسٹنٹ کمشنر اکبر درانی (جو بعدازاں فیڈرل سیکریٹری بنے) بیٹھے ہیں
رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں شکایات سُنی جا رہی ہیں۔ بائیں جانب اسسٹنٹ کمشنر اکبر درانی (جو بعدازاں فیڈرل سیکریٹری بنے) بیٹھے ہیں

موصوف آتے ہی کہنے لگے۔’’ساڈے سارے ٹبّر نُوں بڑی خوشی ہوئی اے کہ ساڈا جٹ بَھرا ضلعے دا پولس کپتان لگا اے، تواڈی بھابی کل دا کہہ رہی اے کہ تُوں سَاریاں توں پہلاں جا کے مبارکباد دے۔ تے مٹھیائی دا ٹوکرا وی لے جا۔‘‘ (ہمارے سارے قبیلے کو اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ ہمارا جٹ بھائی ضلعی پولیس کا سربراہ بن کر آیا ہے۔ 

آپ کی بھابھی یعنی میری بیوی کل سے کہہ رہی ہے کہ تم سب سے پہلے جاکر مبارک باد دو اور مٹھائی کا ٹوکرا بھی لیتے جاؤ) مَیں نے اُسے بڑے کھردرے لہجے میں کہا۔ ’’دیکھیں مَیں نہ جٹ ہوں، نہ آرائیں، نہ گوجر اور نہ مخدوم۔ مَیں ایک پولیس افسر ہوں اور مَیں کسی برادری وغیرہ پریقین نہیں رکھتا۔ 

یہاں جو قانون کا احترام کرےگا، اُس کا چاہے کسی برادری سے تعلق ہو، وہ میرے قریب ہوگا اور جو کسی جرم کا مرتکب ہوگا، وہ چاہے جٹ ہو، آرائیں یا لوکل بندہ، اُس سے کوئی رُو رعایت نہیں برتی جائےگی، یعنی برادری کی بنیاد پر کسی کو کوئی چھوٹ نہیں۔‘‘ میرا پیغام وائس چیئرمین صاحب اچھی طرح سمجھ گئے، لہٰذا انہوں نے جیب سے نکالی ہوئی چِٹ واپس جیب میں ڈال لی اور مزید کوئی بات کیے بغیر اُٹھ کر چلے گئے۔

پولیس افسران سے جرائم کے متعلق بریفنگ لی توپتا چلا کہ ضلع سنگین جرائم کی زد میں ہے، اندرونِ سندھ فوج نے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کررکھا تھا، جس سے سندھ کے حالات یقیناً بہتر ہوئے، مگر ڈاکو وہاں سے بھاگ کر رحیم یارخان میں آگُھسےتھے اور یہاں وارداتیں کر رہے تھے۔ ہماری آخری تحصیل صادق آباد سے لوگوں کو اِغوا کرکے سندھ کے کچّے کے علاقے میں لےجانے کے بھی واقعات عام تھے۔ 

ڈاکے اور اِغوا کے علاوہ مُلک کے ہر شہر کی طرح یہاں بھی منشیات کا دھندا عام تھا اور چرس، ہیروئن کا کاروبار کرنے والے زیادہ ترنوجوانوں ہی کی رگوں میں زہر اتار کر اُنہیں موت کی وادی میں دھکیل رہے تھے۔ منشیات، قماربازی اور بدکاری کے اڈے چل رہے تھے اور پولیس ان سے ماہانہ بھتّے وصول کرتی تھی۔ اِس لیے صرفِ نظر بھی کرتی۔ مَیں نے اسپیشل برانچ، آئی بی اور آئی ایس آئی سے organised gangs ،جرائم کے اڈوّں اور بڑے مجرموں سے متعلق مکمّل معلومات حاصل کر کے بڑے مجرموں کی فہرستیں بنوالیں۔ 

اِس کے علاوہ انتہائی قابلِ اعتبار ذرائع سے معلومات حاصل کیں اور اُن کی بناء پر بدنام ایس ایچ اوز کو نکال باہر کیا۔ تھانوں میں اچھی شہرت کے پولیس افسران تعینات کیے اور اپنی تعیناتی کے تیسرے روز شام کو تمام تحصیلوں اور تھانوں کے انچارجز بلوا لیے۔ اُنہیں جرائم کے اڈّے چلانے والوں کی لسٹیں پکڑائیں اور ہدایت کی کہ ’’رات بھر ریڈ ہوگی، تمام منشیات فروش اور بدکاری کے اڈے چلانے والے گرفتار ہونے چاہئیں۔ 

مَیں رات بھر اِس آپریشن کی خُود نگرانی کروں گا اور آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی گھرجاؤں گا۔‘‘ تین راتوں کے آپریشن میں نوّے فی صد مجرم پکڑے گئے، جن میں دھندا کرنے والے بدنام ترین افراد بھی شامل تھے اور یوں ضلعے بھرمیں منشیات، جوئے اور بدکاری کے اڈے ختم کردیے گئے۔ یہ اڈّے ختم ہونے کے بعد مَیں نے جناح ہال میں کھلی کچہری منعقد کرنے کا اعلان کیا۔

اُس روز جناح ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اسٹیج پر حکومتی پارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیز کے ضلعی صدور کو بھی بٹھایا گیا اور چند جیّد علمائے کرام بھی جلوہ افروز تھے۔ تلاوتِ قرآنِ پاک اورنعت خوانی کے بعد مَیں نے مائیک سنبھال لیا اورحاضرین کو اپنی پالیسی اور ترجیحات سے آگاہ کیا۔

مَیں نے اپنی تقریر کے آغاز ہی میں بتادیا کہ ’’میری یہاں تعیناتی میں کسی سیاسی سفارش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ویسے بھی اگر کوئی سیاست دان مجھے اپنے ضلعے میں لگواناچاہتا تو مَیں انکار کردیتا۔ لہٰذا میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی ایس ایچ او کسی کی سفارش پر تعینات نہیں ہوگا، تعیناتیوں کا فیصلہ سیاست دانوں کے ڈیروں پر نہیں، میرے دفتر میں ہوگا۔ 

اب پولیس فورس میں صرف وہ رہےگا،جس کی وفاداری کسی سیاسی ڈیرے یا وڈیرے کے ساتھ نہیں،پولیس کمانڈ اور اپنے محکمے کے ساتھ ہوگی۔‘‘ مَیں نے مزید کہا کہ ’’انصاف ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور میں یہ حق اُسے ہر قیمت پر دلواؤں گا۔ کسی نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی، تووہ رکاوٹ پوری قوت سے ہٹا دی جائےگا۔‘‘ اِس کے بعد مَیں نے اپنی ترجیحات بتائیں اور اپنی تقریر کے بعد ہر طبقۂ فکر کے نمائیندہ افراد کو خطاب کی دعوت دی۔ تقریر کے لیےآنے والے ہر شخص نے یہی کہا کہ ’’یہ انوکھی طرز کا اجتماع اور یہ نئے انداز کی باتیں ہم پہلی بار سُن رہے ہیں، پولیس کے ضلعیٰ سربراہ تو صرف حکومتی پارٹی کے لوگوں کو بلاتے ہیں۔ 

اُن کے اجتماعات اور کھلی کچہریوں میں اپوزیشن کا داخلہ بند ہوتا ہے۔‘‘ تقریباً ہر مقرّر نے یہ بھی کہا کہ محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کے نئے سربراہ مخلص بھی ہیں اور پُرعزم بھی۔ ہمیں چند ہی دنوں میں محکمے میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ہر مقرّر نے ’’خوش گوار تبدیلی‘‘ کا ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم اس نیک کام میں نئے ایس پی کے ساتھ ہیں۔ پھر، اِسی نوعیت کے اجتماعات تحصیل ہیڈکوارٹرز میں بھی منعقد کیے گئے اور جلد ہی لوگوں کو تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے۔ اُن کا پولیس پر اعتماد بحال ہونے لگا۔ (جاری ہے)