مانچسٹر: امریکا کی طرح برطانیہ میں بھی غیر قانونی مہاجرین کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کے دوران ہزاروں افراد کو روزانہ کی بنیاد پر گرفتار کیا جا رہا ہے جب کہ غیر قانونی افراد نے گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے۔
مختلف رپورٹس کے مطابق ہوم آفس نے ان غیر قانونی مہاجرین کو گرفتار کرنے کےلیے امیگریشن انفورسمنٹ قائم کر دی ہے جس میں تقریباً ایک ہزار افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ مختلف باربر شاپ، ورکشاپ، ریسٹورنٹ، بسوں کے اڈے اور ٹیکسی اسٹینڈ کے علاوہ دیگر مقامات کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
غیر قانونی مہاجرین کی تعداد میں اس وقت اضافہ ہونا شروع ہو گیا جب لیبر کی حکومت قائم ہوئی، کنزرویٹو پارٹی کے ایک طویل عرصہ اقتدار کے بعد ان غیر قانونی مہاجرین کو یہ یقین تھا کہ لیبر حکومت انہیں ہر صورت ریلیف دے گی۔
رپورٹس کے مطابق برطانیہ سے ہر ہفتہ 500 کے قریب غیر قانونی مہاجرین کو بے دخل کیا جا رہا ہے، 2023 میں تقریباً 26 ہزار غیر قانونی مہاجرین کو ان کے ممالک میں بجوایا گیا تھا۔
امریکا میں ٹرمپ حکومت نے غیر قانونی مہاجرین کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، برطانیہ میں سیکس گرومنگ، چوری، ڈکیتی، قتل، منشیات فروش اور نوش افراد کو گرفتار کرنا ہائی ٹارگٹ بن چکا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ اور امریکا کا سیاحتی ویزا حاصل کرنے کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور جن خواہش مندوں نے سیاحتی ویزا حاصل کرنے کے لیے پہلے سے ہی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں وہ انٹرویو کےلیے ایمبیسی جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
برطانیہ نے 2018 کا ریکارڈ توڑتے ہوئے 16400 غیر قانونی مہاجرین کو واپس بھیجا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں پولینڈ کے نو اشاریہ پانچ، انڈیا کے نو فیصد، پاکستانی پانچ اعشایہ نو فیصد، آئرلینڈ کے چار اشاریہ پانچ فیصد کے علاوہ جرمنیہ، رومانیہ، نائجیریا، بنگلہ دیش ،ساؤتھ افریقہ، اٹلی کے غیر قانونی مہاجرین آباد ہیں۔ کیئر اسٹارمر کی حکومت ان غیر قانونی مہاجرین کو کوئی قانونی حیثیت دینے کی بجائے اسے معیشت پر بوجھ قرار دے رہی ہے۔
سابق وزیر داخلہ رحمان ملک مرحوم کے دور میں برطانیہ سے چارٹرڈ فلائٹوں سے وسیع پیمانے پر پاکستانیوں کو برطانیہ سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اب بھی امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے غیر قانونی مہاجرین کو وسیع پیمانے پر گرفتار کر کے واپس بھجوایا جا رہا ہے۔
امیگریشن حکام ان کی تعداد بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یورپی ممالک میں بھی ٹرمپ پالیسی کو اپنایا جائے گا۔