امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس دن سے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوئے ہیں انہوں نے اپنے بیانات اور اقدامات سے ایک نوع کا طوفان اٹھا رکھا ہے دشمن تو رہے ایک طرف وہ تو دوستوں کیلئے بھی کوئی گنجائش نہیں رہنے دے رہے، اپنے یورپی فرینڈز کو کھری کھری سنا رہے ہیں ناٹو اتحادیوں کو بھی فرما رہے ہیں کہ مفتے کا دفاع نہیں ملے گا جیبوں کو ہلکا کرنا پڑے گا کینیڈا اور میکسیکو جیسے ہمسایوں سے فارغ ہوتے ہیں تو پاناما پر چڑھ دوڑتے ہیں ادھر سے ہٹتے ہیں تو گرین لینڈ ایشو پر ڈنمارک کو کڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ اتنی دور بیٹھے تم کس برتے پر براعظم امریکا میں اپنی کالونی یا نوآبادی بنائے بیٹھے ہو؟ ایک طرف پیوٹن کو کڑوی کسیلی سناتے ہیں تو دوسری طرف اپنے فرینڈ مودی کو روسی تیل کے طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہ اپنے غیر قانونی بندے واپس قبول کرو، اپنے معتبر سعودی کراؤن پرنس سے پہلے پانچ سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور تو اور حماس سے ڈراؤنی ڈیل کروانے کیلئے اپنے نیتن یاہو جیسے دوست کی ایک نہیں سنتے وہ لاکھ کہتا ہے کہ آج ہمارا یوم ’’سبت‘‘ ہے ہمارے لیے یہ بات چیت ممنوع ہے مگر ٹرمپ کے زور دار حکم کے سامنے اسے بالآخر ڈھیر ہونا پڑتا ہے۔ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والے کولمبینز کو جہاز میں بھر کے کولمبیا روانہ کرواتے ہیں کولمبین صدر اس جبری حکم کی تعمیل سے انکاری ہوتے ہیں تو فوری بھاری ٹیرف کے ساتھ کئی شدید بندشوں کا ڈرافٹ تیار کروا دیا جاتا ہے۔ نریندر مودی ایسی صورتحال پیدا ہونے سے قبل ہی یہ اعلان کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے غیر قانونی طور پر گئے ہوئے لوگوں کی واپسی ہونی چاہیے یہ گھس بیٹھیے ناجائز طریقوں سے امریکا گئے ہی کیوں تھے؟ اس پر مہربان ہو کر ٹرمپ مودی کا قصیدہ پڑھتے ہیں اور انہیں واشنگٹن یاترا کا دعوت نامہ ارسال کر دیتے ہیں۔ ایئر فورس ون میں سفر کرتے ہوئے وہ میڈیا کے ساتھ گفتگو میں ایک ایسا بیان جاری کرتے ہیں جس سے مڈل ایسٹ میں ایک ہلچل بپا ہو جاتی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے بات کی ہے اور اب مصر کے صدر عبدالفتح السیسی سے بات کروں گا کہ آپ لوگ غزہ کے تباہ حال پناہ گزینوں کو قبول کریں، میں کچھ عرب ممالک سے مل کر ان کیلئے عارضی یا مستقل رہائشی کالونیاں بنوانا چاہوں گا یوں شتابی میں بغیر کسی نوع کی سفارت کاری کے دی گئی ٹرمپ کی یہ تجویز گویا بم پھوڑنے جیسی تھی۔مصر، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، عراق اور لبنان ہی نہیں23عرب ممالک پر مشتمل عرب لیگ نے بھی اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے یورپ سے جرمنی اور فرانس نے بھی اس کے خلاف بیان جاری کیا ہے لیکن ساتھ ہی نہ صرف یورپ اور امریکا بلکہ مڈل ایسٹ میں بھی ٹرمپ کی اس تجویز کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر ایک نوع کا مباحثہ شروع ہو گیا ہے درویش کی نظر میں جس بے ہنگم اسلوب میں امریکی صدر نے یہ تجویز پیش کی ہے شاید اس کا مقصدہی ایک نوع کا ارتعاش پیدا کرنا تھا جو بھی ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنی بڑی بات اتنے بھونڈے اور ہولے اسلوب میں نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس پر امریکی دفتر خارجہ میں باضابطہ ہوم ورک ہوتا اسکے بعد خفیہ سفارت کاری کے تحت تمام اتحادی عرب ممالک کو اعتماد میں لیا جاتا بالخصوص مصر اور اردن کی قیادتوں کو ایک خصوصی پیکیج کے ساتھ اس امر پر قائل کیا جاتا کہ امریکا غزہ کے ڈیڑھ ملین باسیوں کیلئے اپنے خرچ پر نہ صرف اعلیٰ معیار کی رہائش گاہیں تعمیر کرنے کیلئے فوری طور پر تیار ہے بلکہ ان مظلوموں کو روزگار کی فراہمی کیلئے بھی انڈسٹری زونز تعمیرکرے گا۔ بہر کیف ٹرمپ نے جس شتابی اور برے طریقے سے یہ تجویز پیش کی ہے درویش کا گمان ہے کہ اسکے خلاف اس قدر منفی پروپیگنڈا ہو جائے گا کہ مابعد فلسطینی عوام کے مفاد میں موجود مثبت پوائنٹس پر بات کرنا بھی مشکل ہو گا اگر کوئی دانا و مدبر امریکی صدر اس نوع کا پلان لاتا تو پوری تیاری کے بعد اسے پیش کرتا۔ ٹرمپ کے بیان کو تو گریٹر اسرائیل کے تناظر میں دیکھا جائیگا لیکن ذرا ٹھہریے، دوسرے موقف کی جانکاری تو لے لی جائے۔ اگر ہم ٹھنڈے پیٹوں غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں جو انسان پس رہے ہیں وہ غزہ کے عام عوام ہیں حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پرجو دھاوا بولا اسکی اصل قیمت کسے چکانا پڑی؟ غزہ کے فلسطینی عوام کو جانی طور پر بھی مالی طور پر بھی۔ سیانے کہہ رہے ہیں آباد کاری اور تعمیرات میں اکیس برس لگیں گے۔ کیا غزہ کے یہ بے قصور عوام نسل در نسل یونہی رلتے رہیں گے؟ نفرت اور بدلے کی آگ میں یوں ہی جلتے رہیں گے؟ بالفرض اگر غزہ میں جیسے تیسے رہائش گاہیں تعمیر ہو بھی گئیں تو ان لوگوں کا روزگار کیا ہو گا؟ پہلے وہ جس طرح وہ مخصوص رستوں سے اسرائیل کے انڈسٹریل زونز میں جاتے تھے حماس نے اب اسکی گنجائش تو رہنے نہیں دی اس لیے ایک تجویز کے طور پر اگر ہم اس پہلو پر غور کر لیں تو کیا حرج ہے؟ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور، پہاڑ جیسی اکانومی کی حامل طاقت، اگر یہ ذمہ داری اٹھائے کہ مصر اوراردن کے بیابانوں میں آبادکاری کرتے ہوئے ان کیلئے عالمی سٹینڈرڈ کی رہائش گاہیں اور کاروباری سرگرمیوں کا اہتمام ہو جائے جس سے ان کی زندگیوں میں خوشحالی آئے تو ہمیں غصہ آخر کس بات کا ہے؟
(یہ صاحب مضمون کی ذاتی رائےہے ،مدلل جواب قبول کیا جائے گا)