(گزشتہ سے پیوستہ)
منیر کی نظمیں اور ان کی غزلیں دل پر ایک جیسا اثر چھوڑتی ہیں ورنہ عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کی نظم اور کسی کی غزل بہت لاغرہوتی ہے۔ منیر کا پنجابی کلام ایک لحاظ سے ان کے اردو کلام کا ترجمہ ہے اور یہ بات ان کی بعض پنجابی غزلوں میں زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے البتہ ان کی پنجابی کی نظمیں اس ’’شرک‘‘ سے محفوظ ہیں جیسے
سورج چڑھیا پچھم تُوںتے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایویں لنگیا، کوئی وی کم نہ ہویا
سورج مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں ڈوب گیا میرا آج کادن بھی ضائع گیا کوئی کام نہیں ہوا ۔
اردو نظموں میں ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ میری پسندیدہ ترین نظم ۔ مگر میں کیا کروں میں ان کی شاعری کے علاوہ ان کی شخصیت کا بھی عاشق ہوں ان کی پر مزاح اور حکمت بھری باتیں یاد آتی ہیں تو میں چند لمحوں کے لئے ان کی شاعری کو بھول جاتا ہوں۔ایک واقعہ تو ایسا ہے، جب یاد ہمیں آتا ہے تو اکیلے میں بھی ہنسی پر قابو نہیں پایا جاتا۔ ایک بار ہالینڈ سے میرے ایک مداح کنگ سائز اسکاچ کی بوتل لائے اور بہت عقیدت سے پیش کی میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی کہ میں شراب نہیں پیتا انہوں نے سمجھا کہ شاید میں اپنے عیب پر ایک پرظاہر نہیں کرنا چنانچہ کہنے لگے کوئی بات نہیں آپ کسی میخواردوست کو پیش کر دیجئے ۔میں نے بوتل رکھ لی اور سارے شہر پر نظر دوڑائی تو سب سے زیادہ موزوں شخصیت منیر نیازی کی صورت میں نظر آئی۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا شدید لو چل رہی تھی میں نے اپنی موٹر سائیکل نکالی بوتل اخبار میں لپیٹی مدنی جماعت کے امیر کی اس نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے شخص کے دل میں شیطانی خیالات آجاتے ہیں ایک دوست کو پیچھے بٹھایا اور منیر کی رہائش گاہ ٹائون شپ چلا گیا۔ انہوں نے جب میرے ہاتھ میں اسکاچ کی کنگ سائز بوتل دیکھی تو بے ساختہ ارشاد فرمایا ’’عطا تم طبیب ہو‘‘ اور فوراً گلاس میں انڈیل کر غٹا غٹ پینے لگے، اس پر میرے ساتھ آئے ہوئے دوست نے مجھے کہنی ماری اور آہستہ سےکہا ’’مجھے بھی پیاس لگی ہے‘‘ میں نے منیر صاحب سےکہا کہ ایک گلاس اور لیکر آئیں میرا یہ دوست آپ کا ساتھ دینا چاہتا ہے یہ سن کر منیر نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’تم نے آتے ہی ’’منگ‘‘ ڈال دی ہے‘‘ کاش آپ سب لوگ اس جملے کا لطف لے سکتے اسے آسان لفظوں میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ’’ تم آتے ہی بھکاری بن گئے ہو‘‘
ایک بار شریف کنجاہی اور منیر نیازی ایک کار میں ہمسفر تھے۔ مشاعرہ کسی دور دراز شہر میں تھا۔ منیر مسلسل ایک بوتل کو منہ لگاتے اور دو تین گھونٹ لیتے چنانچہ مثانوں پر زور پڑنے کی وجہ سے ہر تیس چالیس کلو میٹر کے بعد شریف صاحب سے کہتے گاڑی رکوائیے میں نے ’’موتر‘‘ کرنا ہے۔ پنجابی کا یہ لفظ اس کے متبادل اردو لفظ سے شائستہ ہے، جب کافی فاصلہ طے ہو گیا تو منیر سے پوچھا ’’شریف اور کتنا فاصلہ باقی ہے۔‘‘ شریف صاحب نے کہا ’’بس دو موتر اور !‘‘ منیر نیازی مشاعروں میں بہت کم کسی کو داد دیتے تھے ایک ریڈیو مشاعرے میں سب شاعروں نے ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر طے کیا کہ آج منیر کو کوئی داد نہیں دے گا۔ مشاعرہ شروع ہوا، منیر نے مطلع پڑھا اور شعرا کی طرف دیکھا مگر ادھر چپ جب دوسرے شعر پر بھی داد نہ ملی تو منیر نے تیسرا شعر پڑھتے ہوئے خود ہی کہا ’’واہ منیر صاحب مکرر ارشاد‘‘ ظاہر ہے یہ سین ریڈیو مشاعرے ہی میں ہو سکتا تھا۔ منیر نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک مشاعرے میں عالمِ مستی برابر میں بیٹھے ایک بزرگ شاعر کے گھٹنے کو ہاتھ لگایا جس کا مقصد انہیں ا حترام دینا تھا منیر نے بتایا کہ دوسری دفعہ وہ کسی وجہ سے خود ذرا جھکے تو اس بزرگ شاعر نے خود بخود اپنا گھٹنا اوپر کر دیا!
منیر کی اہلیہ محترمہ کے انتقال پر شہر کے کم وپیش سارے نمایاں شاعر جنازے میں شرکت کیلئے گئے۔ منیر نیازی زار و قطار رو رہے تھے احمد ندیم قاسمی ان کو دلاسہ دے رہے تھے اتنے میں منیر کے ایک خاص نیازی قسم کے چچا نے اپنی کھڑک دار آواز میں کہا ’’اوئے منیر خاں مرد رویا نہیں کرتے تمہارے لئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں‘‘ اس پر منیر کی آہ وزاری میں وقفہ آیا اور قاسمی صاحب سے کھلکھلاتے ہوئے کہنے لگے ’’ندیم صاحب چاچا جی کی سنیں وہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘ اور وفات کے چالیس دن پورے ہونے پر اکتالسویں دن دوسری شادی کر لی ۔مجھے اپنی ایک خاتون ریڈر کا خط آیا کہ براہ کرم منیر نیازی کا ایڈریس بھیج دیں میں ان کی اہلیہ کی تعزیت کرنا چاہتی ہوں میں نے اسے ایڈریس بھیجا اور ساتھ یہ مشورہ بھی کہ تعزیت کے علاوہ انہیں نئی شادی کی مبارک بھی دے دینا بظاہر یہ بہت عجیب لگتا ہے مگر صاحب اولاد نہیں تھے اور اکیلا گھر انہیں کاٹنے کو دوڑتا تھا؟ (جاری ہے)