• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎ہمارے میڈیا میں ان دنوں پیکا ایکٹ کا بڑا چرچا ہے، سبھی اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں، پیکا ترمیمی بل جو اس وقت اسمبلی سینیٹ اور صدر کی منظوری کے بعد پیکا ایکٹ بن چکا ہے اسکا مقصد بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں دی جانے والی فیک نیوز کو روکے گا۔ پیکا، PECA یعنیThe Prevention Of Electronic Crimes Act 2025‎ءکے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائیگی یہ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ کو یقین بنائے گی رجسٹریشن کی بھی مجاز ہوگی اور رجسٹریشن ختم بھی کر سکے گی۔‎ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی اس پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کی مجاز ہوگی ،سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرے گی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہوگا اتھارٹی نظریہ پاکستان کے خلاف شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی، اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی ،فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا اس قانون کے تحت کارروائی کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کی خاطر کسی نوع کے وارنٹ کی کوئی ضرورت نہ ہوگی ۔

‎اس وقت بظاہر دیکھا جائے تو ہمارے سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی چھایا ہوا ہے،اس سے کسی عزت دار کی عزت محفوظ نہیں جس کے ذہن میں جو آتا ہے اپلوڈ کر دیتا ہے، عام آدمی کیلئے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا محال بنا دیا گیا ہے بلکہ سچ کے بالمقابل پروپیگنڈے کے زور پر جھوٹ زیادہ نمایاں اور چھایا ہوا دِکھتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس کی روک تھام ہونی چاہیے لیکن دوسری جانب یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ہماری سوسائٹی میں کوئی بھی قانون خواہ کتنے اچھے الفاظ کے ساتھ بنایا جاتا ہے، اس پر عمل درآمد کروانے والے کن کن حیلوں اور طریقوں سے اس کا مس یوز کرتے ہیں کہ اس کے شکنجے میں آنے والا بے گناہ چیخ اٹھتا ہے کہ اسے تو اس سوسائٹی میں رہنا ہی نہیں، قانون کی عملداری کے نام پر رشوت خوری کا ایک نیا بازار کھل جاتا ہے اور پھر اس پر صحافی تنظیموں کا یہ اعتراض سو فیصد درست ہے کہ اس حوالے سے قانون کوتشکیل دیتے ہوئے ان سے کسی نوع کی مشاورت تک نہیں کی گئی خود سیاست دان ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن فرما رہے ہیں کہ صدر زرداری نے مجھے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ آزادی اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے والے قانون پر دستخط نہیں کریں گے لیکن اگلے روز مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو اس پر دستخط پہلے ہی کر چکے تھے۔اگر ایسا ہی ہے تو اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت کا یہ رویہ نا قابل ِ فہم ہی گردانا جائیگا، پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ ہم اور پی پی اس ایشو پر ایک تھے ہمارے ساتھ وعدےکیے گئے تھے پھر انہوں نے دوغلا پن دکھایا اور بل منظور کروا دیا ،پاکستان کو نارتھ کوریا بنا دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ آج الیکٹرانک میڈیا میں جس قدر ترقی ہوچکی ہے اس کا پہیہ پیچھے کو نہیں گھمایا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی شخصیت کی کردار کشی ناقابل قبول ہے لیکن اس برائی کی آڑ میں انسانی حقوق اور آزادیوں کا گلا نہیں دبایا جا سکتا بالفرض آپ اندرونِ ملک خوف و ہراس یا سزاؤں سے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبا لیں گے مگر جب یہی آوازیں بیرون ملک بیٹھے‎لوگ سوشل میڈیا پر اٹھائیں گے تو انہیں روکنے کا کیا اہتمام فرمائیں گے؟ بہتر یہی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی مشاورت سے مسئلے کا متفقہ حل نکالیں۔ اسی کی مطابقت میں قانون سازی کریں۔ جس شتابی سے یہ سب اکھاڑ پچھاڑ کی ہے یہ جمہوری پارلیمانی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے، پہلے ہی یہاں نظریہ پاکستان کے نام پر آزادئ اظہار کے حوالے سے جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس نے ہماری سوسائٹی کو ایسا گھٹن زدہ،تنگ نظر و تنگ دل بنا ڈالا ہے کہ یہاں وسعت قلبی رکھنے والے وسیع الظرف لوگ خال خال ہی ملیں گے جبکہ چھوٹے سروں والی مخلوق کی فوج ظفر موج سے قدم بہ قدم واسطہ پڑے گا یہاں ایسے لوگ یہ استدلال کرتے بھی ملیں گے کہ رخصت ہوتے ہوئے’’خدا حافظ‘‘ مت کہو کہ یہ حرام ہے اس کی بجائے اللہ حافظ کہو، ایسی فضا میں اعلیٰ انسانی آدرشوں اور وحدت ادیان جیسی وسعتوں کے حاملین سوسائٹی کے مجرم بنے بزدلوں کی طرح بلوں میں چھپتے ملیں گے۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ ہماری زبان میں جو لٹریچر پارٹیشن سے قبل انگریز کے دور غلامی میں کھلے بندوں شائع ہوتا رہا کیا آج اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ اے میرےملک کے حکمرانو خدارا ، نظریہ پاکستان اور دیگر مقدسات کے ریفرنس سے آزادی اظہار کا گلا دبانا اور ہیومن رائٹس کی پامالی اب بس کر دو، حریت فکر اور انسانی وقار کا کچھ تو بھرم رہنے دو ۔

تازہ ترین