دنیا بَھر کی یونی ورسٹیز خود مختار ادارے کے طور پر کام کرتی ہیں، جن کے پالیسی ساز اداروں خصوصاً سینیٹ، سینڈیکیٹ، اکیڈمک کاؤنسل اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی وغیرہ میں یونی ورسٹیز کے اساتذہ، ملازمین اور طلباء وطالبات کی نمائندگی کے ساتھ، پارلیمنٹ کے منتخب ارکان سمیت سِول سوسائٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین شامل کیے جاتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی، ذوالفقار علی بھٹّو کی وزارتِ عظمیٰ کے دَور میں1973 ء کے آئین کے نفاذ کے بعد جامعہ پنجاب، سندھ و پشاور یونی ورسٹیز، جامعہ کراچی اور وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونی ورسٹی کے لیے تعلیم دوست اور جمہوری قوانین نافذ کیے گئے۔ اِسی تسلسل میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے یونی ورسٹی آف بلوچستان کے لیے1996 ء میں ایک تعلیم اور صوبہ دوست ایکٹ پاس کیا۔2024 ء میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔
بدقسمتی سے صوبے کی یونی ورسٹیز کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت کنٹرول کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اِس ضمن میں صوبے کی یونی ورسٹیز پر کبھی تعلیم، صوبہ دشمن’’ماڈل یونی ورسٹیز آرڈیننس‘‘ نافذ کیا جاتا ہے، تو کبھی ان پر جَلد بازی اور قواعد وضوابط کے برخلاف زبردستی2022ء کا ایکٹ تھوپ دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں یونی ورسٹیز کی خود مختاری مکمل طور پر ختم کر دی جاتی ہے۔
اب یونی ورسٹیز ایکٹ2022 ء میں مزید تعلیم دشمن اور آمرانہ ترامیم لائی جا رہی ہیں، جب کہ پنجاب، سندھ اور وفاقی دارالحکومت کی تمام یونی ورسٹیز، خصوصاً قائدِ اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد میں آج تک وہی پرانے قوانین نافذ ہیں، جن کے تحت پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ کرام اور دیگر اپنے نمائندگان کو منتخب کرکے بھیجتے ہیں۔
بلوچستان کی مخلوط حکومت، یونی ورسٹیز ایکٹ2022 ء میں مزید ترامیم کے لیے سرگرم ہے اور اِس ضمن میں صوبائی وزیرِ تعلیم، راحیلہ حمید درّانی کی جانب سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں، وہ تعلیم دشمن ہونے کے ساتھ، صوبے کے مفادات کے بھی منافی ہیں۔یہ ایکٹ درحقیقت، صوبے کی تمام یونی ورسٹیز کو مزید آمرانہ طرز پر چلانے اور یونی ورسٹی سروسز کو لازمی (Essential services) قرار دینے کی مذموم سازش ہے، جس کا مطلب یونی ورسٹیز کے اساتذہ، ملازمین اور طلباء وطالبات کو اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے سے روکنا ہے۔
یہاں تک کہ اُنہیں رائے دینے کی بھی اجازت نہیں ہوگی اور اگر وہ اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اُٹھائیں گے، تو اُنہیں پولیس اور مجسٹریٹ کے ذریعے سزا دِلوائی جاسکے گی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ تمام مجوّزہ ترامیم پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی مخلوط حکومت کی صوبائی وزیرِ تعلیم راحیلہ حمید درّانی کے ذریعے پیش کی جارہی ہیں، جو خود بھی ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک منتخب رُکن صوبائی اسمبلی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ وہ اور چند دیگر ارکانِ صوبائی اسمبلی، یونی ورسٹیز کے پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ، ملازمین اور طلباء وطالبات کی منتخب نمائندگی کے خلاف ہیں۔
یونی ورسٹیز ایکٹ میں اِس طرح کی ترامیم کا مقصد یہی ہے کہ انہیں مزید آمرانہ طرز پر چلایا جائے اور یونی ورسٹیز کے اصل، بنیادی اسٹیک ہولڈرز اساتذۂ کرام، ملازمین اور طلباء وطالبات کو فیصلہ سازی کے عمل سے دُور کیا جاسکے۔ اِس وقت صُورتِ حال یہ ہے کہ صوبے کی تمام سرکاری یونی ورسٹیز سخت مالی اور انتظامی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ یونی ورسٹیز کے اساتذہ اور ملازمین کو ماہانہ تن خواہیں کئی کئی ماہ کے بعد بھی بمشکل مل پاتی ہیں اور یہی حال پینشنرز کا ہے۔یونی ورسٹیز کے اہم انتظامی عُہدوں پر سفارش کی بنیاد پر تعیّناتیاں ہو رہی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ تعلیم کے شعبے میں محروم اور نظر انداز صوبے کو مزید جہالت اور تباہی کی جانب دھکیلنے کی ایک منظّم سازش ہے۔ صوبے کی یونی ورسٹیز کی منتخب اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن اور فیڈریشن آف آل پاکستان یونی ورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن اِس اہم موقعے پر صوبائی اسمبلی کے ارکان، تمام سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماؤں، طلبہ تنظیموں، سِول سوسائٹی اور وکلاء برادری سے پُرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ تعلیم اور صوبہ دشمن اِن آمرانہ ترامیم کے خلاف بھرپور انداز میں آواز اُٹھائیں اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ مُلک کے دیگر صوبوں کی یونی ورسٹیز کی طرح، بلوچستان کی یونی ورسٹیز کی خود مختاری برقرار رکھنے، اساتذہ، ملازمین اور طلباء وطالبات کی منتخب نمائندگی یقینی بنانے کے ضمن میں یونی ورسٹیز عملے کے لیے’’ لازمی سروسز‘‘ جیسے بنیادی حقوق کے منافی عمل کو کسی صُورت یونی ورسٹیز ایکٹ کا حصّہ نہ بنائے۔ (مضمون نگار، فیڈریشن آف آل پاکستان یونی ورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن(فپواسا)کے سابق صدر ہیں)