• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

سقوطِ ڈھاکا سے قبل میرے والد ایک نجی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، لیکن پھر اُنھیں اپنا کاروبار کرنے کا ایسا سودا سمایا کہ بیٹھے بٹھائے اچھی بھلی نوکری سے استعفیٰ دے کر ذاتی کاروبار شروع کردیا۔ سو، کمپنی نے اُنھیں رہائش کے لیے جناح ایونیو میں جو گھر دیا تھا، استعفے کے بعد اُسے چھوڑ کر محمد پور، نورجہاں روڈ پر کرائے کے گھر میں مقیم ہوگئے۔ میری تو خوشی دیدنی تھی، کیوں کہ جناح ایونیو، شہر کا تجارتی مرکز تھا، وہاں رہائشی مکانات بہت کم تھے۔ 

پورے علاقے میں بس دفاتر ہی دفاتر ہونے کی وجہ سے بچّے بھی نہیں تھے کہ جن کے ساتھ ہم کھیل کود سکتے، اس لیے جناح ایونیو کا مکان ہم بچّوں کے لیے ایک قیدِ تنہائی اور حبسِ بے جا ہی کی مانند تھا۔ اگرچہ امّی روزانہ شام کو ہم تینوں بہنوں کو ڈرائیور کے ساتھ اسٹیڈیم، بیت المکرم مسجد یا بوٹانیکل گارڈن کی سیر کے لیے بھیجتی تھیں، مگر وہاں ہماری کوئی سہیلی نہیں تھی۔ محمد پور کی تو بات ہی نرالی تھی، ہر طرف بچّے ہی بچّے۔ جلد ہی میری بہت سی سہیلیاں بن گئیں۔ 

نچلی منزل میں حسنہ کی فیملی تھی، پڑوس میں نادرہ، دو گھر چھوڑ کر رضیہ کی فیملی۔ ہم تینوں بہنوں کی دوستی اُن سب سے ہوگئی۔ آپا کی دوست، کلثوم باجی، میری بہن زرّین کی دوست اور کلاس فیلو شہربانو اور میری دوست اور کلاس فیلو رضیہ۔ یہاں محمد پور میں آکر ہم تینوں کا داخلہ محمد پور اسکول میں ہوگیا، کیوں کہ پرانا اسکول سینٹ فرانسس، نواب پور میں تھا، جو یہاں سے بہت دُور تھا۔ 

شروع شروع میں اسکول کی تبدیلی تھوڑی کھلی، پھر یہاں بھی بہت سی سہیلیاں بن گئیں۔ خیر، یہاں ہم بے انتہا خوش تھے، بلکہ حقیقت میں ہماری زندگی کا وہ بہترین دَور تھا۔ گو کہ پاپا کی کاروباری مصروفیات کے سبب یہاں جناح ایونیو کی طرح ہر دوسرے دن کی پکنک موقوف ہوگئی تھی، لیکن محمد پور کی رونق کا کوئی بدل نہ تھا، خصوصاً رمضان المبارک میں تو یہاں کی رونقیں دیدنی تھیں، خاص طور پر سحری کی۔

سحری کا وقت شروع ہوتے ہی پہلے تو ڈھول والا آتا، اس کے بعد پیٹرومیکس کی روشنی میں لڑکوں کا نعتیں پڑھتا ہوا جلوس گزرتا۔ ہائے! کیسا خوش کُن منظر ہوا کرتا تھا۔ ہم تو کھڑکی میں کھڑے ہوکر اُن مناظر سے خُوب لُطف اندوز ہوتے، پھر جلدی جلدی سحری کرتے، جب کہ امّی صبح نو بجے دوبارہ ناشتا کرواتیں۔ 

ہمارا اسکول صبح دس سے شام چار بجے تک کا تھا۔ امّی کہتیں کہ بچّے ایسے وقفوں ہی کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔ پھر عید کی رونق اور گہماگہمی بھی ہمیں آج تک یاد ہے۔ اُس دَور کی روایت تھی کہ طلبہ عید کے دن اپنے اساتذہ کے گھر جاتے، تو وہ اتنی محبّت سے پیش آتے اور خوب خاطر مدارات کرتے۔ ہمیں تو یقین ہی نہ آتا کہ یہ وہی سخت گیر استانیاں ہیں، جو اسکول میں سانس روکے رکھتیں۔ سخت سے سخت ٹیچر کا رُوپ اور رویّہ اُس دن کچھ اور ہی ہوتا۔ پھر طلبہ کا اپنے اساتذہ کو عید کارڈز دینا، اگر استانی بہت ہی پسندیدہ ہوتی، تو چوڑیوں اور رِبنز کا تحفہ دینا بھی روایت میں شامل تھا۔ 

بڑے ہی مزے کے دن گزر رہے تھے۔ اُس وقت میں کلاس تھری میں تھی۔ آپا جب نویں جماعت میں آئیں، تو انہوں نے سائنس لے لی۔ باقی مضامین پر تو اُن کی گرفت مضبوط تھی، مگر ریاضی میں ذرا کم زور تھیں، اوپر سے بورڈ کے امتحان کی دہشت بھی اُن پر بے طرح سوار تھی۔ ڈھاکا بورڈ ویسے بھی دشوار ترین بورڈ مانا جاتا تھا۔ سو، آپا کے لیے شدّو مد سے ٹیوٹر کی تلاش شروع کردی گئی۔ 

کافی تگ و دو کے بعد بھی کوئی ڈھنگ کا ٹیوٹر نہیں ملا، تو اس سلسلے میں میرے پاپا، محمد پور گرلز ہائی اسکول کی پرنسپل سے ملے، جنھوں نے اس مسئلے کا حل ماسٹر نذیر کی شکل میں پیش کردیا اور ساتھ ہی ساتھ گھنٹی بجا کر چپراسی کو ماسٹر نذیر کو بلانے کہا۔ 

پھر اُن کے بارے میں بتانے لگیں کہ ’’ماسٹر نذیر وضع دار، خوش اخلاق، دُبلے پتلے، سرو قد، گندمی رنگ کے ایک نستعلیق انسان ہیں۔ وہ اسکول میں نویں، دسویں جماعت کو ریاضی پڑھاتے ہیں، نہایت کم گو اور اس قدر پابندِ وضع ہیں کہ چائے کے وقفے میں بھی اسٹاف روم میں نہیں بیٹھتے کہ پچانوے فی صد سے زیادہ اسٹاف خواتین پر مشتمل ہے۔ 

اس دوران چائے پینے کے لیے اسکول سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اسکول میں پرنسپل سمیت کسی کو اُن سے کوئی شکایت نہیں ہے۔‘‘ پرنسپل نے اُن کے بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ماسٹر نذیر واقعی بے نظیر ہیں۔ اپنے مضمون میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور زندگی کی عسرت کو اپنی راحت بیگم کے ساتھ ہنسی خوشی برداشت کررہے ہیں۔

ماسٹر صاحب کی ایک ہی بیٹی ہے، جو شادی کے بعد اپنے شوہر اور اکلوتے بیٹے نوید کے ساتھ دیناج پور میں مقیم ہے۔ اُس کا شوہر ریلوے میں ٹی ٹی ہے۔ وہ مہینے دو مہینے بعد اپنی اہلیہ کو اُس کے ماں باپ سے ملوانے دیناج پور سے ڈھاکا لے کر آتا ہے، تو ماسٹر نذیر خوشی سے کھل اٹھتے ہیں، اپنے چھوٹے سے خاندان میں اُن کی گزر بسر بہت اچھی طرح سے ہورہی ہے، وہ غضب کے سخی اور دیالو بھی ہیں، نہ جانے کتنے غریب طالب علموں کی فیس اور دیگر اخراجات اپنے ذمّے اٹھا رکھے ہیں۔‘‘

پاپا ماسٹر نذیر سے مل کر بہت خوش ہوئے، اُن سے اپنا مدعا بیان کیا، تو ماسٹر نذیر نے نہایت عاجزی سے کہا۔ ’’مجھے پڑھانے میں کوئی تامّل نہیں، مگر بٹیا کو میرے غریب خانے آنا ہوگا، کیوں کہ میری اہلیہ حادثے کے باعث معذور ہیں اور مَیں اسکول کے بعد مسجد کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتا۔‘‘ انھوں نے دوسری شرط یہ رکھی کہ پڑھانے کا کوئی معاوضہ نہیں لیں گے۔ پاپا کے لیے دونوں شرائط ناقابلِ قبول تھیں، مگر وہ اُن سے اس قدر متاثر ہوگئے تھے کہ ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔ 

بقول ماسٹر صاحب ۔’’ علم برائے فروخت نہیں، یہ تو ایک بیش بہا خزانہ ہے، لہٰذا علم کا فیضِ عام ہونا چاہیے۔‘‘ ٹیوشن کے لیے ہفتے میں تین دن، بعد نمازِ عصر کا وقت طے پایا۔ پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا، تو مجھے بھی آپا کے ساتھ نتھی کردیا گیا۔ اس پابندی پر ہم دل ہی دل میں بہت جلبلائے کہ کھیل کا وقت مارا جارہا تھا، پر ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ بھلا پاپا کے آگے کون بول سکتا تھا؟ ماسٹر نذیر، ٹاؤن ہال کے بالمقابل رہتے تھے۔ 

دائیں ہاتھ پر تیسری گلی میں ان کا چوتھا مکان تھا۔ مختصر سا گھر تھا۔ دو کمرے، اُن کے آگے برآمدہ، پھر ایک چھوٹا سا آنگن۔ آنگن کے ایک طرف باورچی خانہ، دوسرے کونے میں غسل خانہ اور بیت الخلاء۔ آنگن میں جنوبی دیوار کے ساتھ ایک کیاری، اُس میں دھنیا، پودینا، ہری مرچ اور چنبیلی کی جھاڑ اور قریب ہی دو گملے تھے، جن میں سفید گلاب اور موتیا کے پھول کِھلے رہتے تھے۔ آنگن کی کُل کائنات ایک تخت اور دو مونڈھے۔ ایک پر آپا بیٹھ جاتیں اور دوسرا میری تحویل میں آجاتا۔ 

پہلے دن تو ہم آنگن ہی تک محدود رہے، پر سیمابی طبیعت کو قرار کہاں؟ دوسرے دن ہم نے ماسڑ صاحب سے چچی کو سلام کرنے کی اجازت لی، ماسٹر صاحب نے ایک ہلکی سی مُسکراہٹ کے ساتھ اجازت دے دی۔ ہم نے سکون کی لمبی سانس لی کہ لاکھ ماسٹر صاحب نرم خُو تھے، مگر اُن کی شخصیت کا رُعب اتنا تھا کہ اُن کے سامنے تو کُھل کر سانس لینا بھی محال تھا۔ 

چچی وضو کرتے ہوئے پھسل کر غسل خانے میں گرگئی تھیں، اُن کا داہنا ہاتھ، کلائی سے کُہنی تک فریکچر کے سبب پلستر میں جکڑا پڑا تھا۔ چچی قدرے بھاری بدن کی، بہت گوری چٹّی خاتون تھیں، اور شخصیت کی ساری کشش اُن کی خُوب صُورت، چمک دار آنکھوں اور مَن موہنی مسکراہٹ میں تھی۔ مَیں سدا کی باتونی، اُنھیں دنیا جہان کے قصّے سُناتی، وہ دل چسی سے سنتی رہتیں۔ 

بیچ بیچ میں لقمہ بھی دیتی جاتیں۔ الغرض، میری اور چچی کی بہت اچھی دوستی ہوگئی، خوب گاڑھی چَھننے لگی۔ مَیں ان کی اس قدر عادی ہوگئی تھی کہ جس دن ٹیوشن کا ناغہ ہوتا، مجھے اُن کی کمی شدّت سے محسوس ہوتی۔ دن یک ساں رفتار سے گزرتے رہے، آپا کی پڑھائی زور و شور سے جاری تھی۔ انھوں نے امتحانات کی تیاریوں میں جان لڑا دی تھی، لہٰذا رزلٹ بھی شان دار آیا۔ 

آپا نے میٹرک فرسٹ ڈویژن سے پاس کرلیا، تو امّی نے محلّے، رشتے داروں اور ملنے جُلنے والوں میں منوں کے حساب سے مٹھائی بانٹی۔ وہ بلاشبہ ایک یادگار دن تھا، کِھلکھلاتا چمکتا ہوا۔ امّی، پاپا اور آپا مٹھائی لے کر ماسٹر نذیر کے گھر گئے، تو اُن کی خوشی دیدنی تھی کہ اُن کے سارے طالبِ علم بہت نمایاں نمبرز سے پاس ہوگئے تھے۔ اس خوشی میں ماسٹر صاحب نے پورے اسکول کو مٹھائی کھلائی تھی۔

1969 ءکے وسط میں ہم لوگ نورجہاں روڈ سے اورنگ زیب روڈ اپنے ذاتی گھر میں شفٹ ہوگئے، تو ماسڑ صاحب کے گھر جانے کا سلسلہ برقرار نہیں رہ سکا۔ مشرقی پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ ڈھاکا میں کسی حد تک تک امن و امان برقرار تھا، مگر اندرونِ مشرقی پاکستان حالات بہت ہی خراب ہوگئے تھے۔ لُوٹ مار، قتل و غارت گری، آئے دن کی کہانی تھی۔ لوگ جائے پناہ کی تلاش میں دُور دراز کے علاقوں سے ڈھاکا پہنچ رہے تھے، جو استطاعت رکھتے تھے، وہ کراچی منتقل ہورہے تھے۔ 

فضا میں ہر سُو خوف و ہراس اور بے یقینی تھی۔ دوست، دشمن کی تمیز ختم ہوچکی تھی، لوگ اپنے سائے سے بھی خوف زدہ تھے۔ اکتوبر تک حالات مزید خراب ہوگئے۔ چھوٹے شہروں میں فسادات پُھوٹ پڑے اور بھرا پُرا شہر، شہرِ خموشاں میں تبدیل کردیا گیا۔ دیناج پور، کشٹیا، کھلنا، راج شاہی، پبنہ، رانگاماٹی، میمن سنگھ، چاٹگام اور سلہٹ سمیت مشرقی پاکستان کے ہر شہر میں کُشت و خون کا بازار گرم تھا۔ محدود فوج کہاں کہاں جاتی۔ 

مکتی باہنی نے پُلوں، سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کو بھی تباہ و برباد کردیا تھا۔ کل کے عزیز دوست، آج کے بدترین دشمن بن چُکے تھے، عصبیت کا جِن بوتل سے باہر آکر نفرت کا لاوا اُگل رہا تھا۔ ایسی لال آندھی چلی کہ انسانی خون پانی سے بھی ارزاں ہوگیا۔ انسانی جان کی حُرمت ہی باقی نہ رہی۔ اس قدر فساد بپا کیا گیا کہ1947ء کی یاد تازہ ہوگئی۔ 1947ء میں کم از کم ایک صبر تھا کہ مارنے والے ہندو یا سِکھ تھے، یہاں قیامت یہ تھی کہ مرنے اور مارنے والے دونوں ہی کلمہ گو تھے۔ 

ڈھاکا میں پناہ گیروں کی یلغار تھی، ریفیوجی کیمپس بھر گئے تھے، اسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ نہ رہی۔ ابھی ایک مرگ کا رونا ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کی خبر آجاتی۔ ایک دن خبر ملی کہ میری امّی کے ماموں اور ماموں زاد بھائی، جو میڈیکل کے آخری سال میں تھے، دیناج پور میں شہید کردیئے گئے۔ ساتھ ہی ماسٹر نذیر کے داماد اور لاڈلے نواسے کی شہادت کی خبر ملی۔ ایک تسلسل تھا، دل دوز خبروں کا۔ 

جب تک پاکستانی فوج پبنہ پہنچی، پورا شہر خاک و خون میں نہا چکا تھا۔ جوان عورتوں اور لڑکیوں کی بے حُرمتی کے بعد کچھ کو بے دردی سے ذبح کردیا گیا، کچھ کو درختوں کی ٹہنیوں سے لٹکاکر پھانسی دے دی گئی۔ مشرقی پاکستان کے تقریباً ہر چھوٹے، بڑے شہر کی یہی رُودادِ الم تھی۔ بربریت کی ایسی ایسی داستان کہ انسان لرز جائے۔ انسانی جسم پہ ڈرل مشین سے ’’جیے بنگلا‘‘ لکھا جاتا۔ 

چاٹگام میں پاکستان سے وفاداری کی سزا دینے کا اذیت ناک طریقہ یہ تھا کہ غیر بنگالیوں کے جسم سے پورا خون کشید کرلیا جاتا یا دو بانس کے بیچ سر رکھ کر ٹوکے سے سر اُڑا دیا جاتا۔ عورتوں کی بے حُرمتی کے بعد انہیں تڑپا تڑپا کر مارا جاتا۔ ظلم اور سفّاکیت کی کوئی حد نہ تھی، کہیں اماں نہ تھی۔ ڈھاکا میں قائم مختلف کیمپوں میں لوگ اپنے عزیزوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے۔ ماسٹر نذیر اپنے لاڈلے نواسے کی شہادت کے بعد چہیتی بیٹی کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ 

ایسی ہی ایک تلاش کے دوران ماسٹر صاحب کو اُن کی بیٹی مل گئی۔ وہ کیمپ کے برآمدے میں ایک کونے میں سکتے کے عالم میں بیٹھی تھی۔ جب ہم لوگ تعزیت کے لیے ماسٹر صاحب کے گھرگئے، تو وہاں ایک دہشت ناک خاموشی تھی۔ ایسی خاموشی، جو رُوح تک کو گھائل کردے۔ چچی بالکل خاموش تھیں، اُن کی مُسکراتی آنکھوں میں دُھند اُتری ہوئی تھی۔

اُن کی بیٹی صحن میں رکھے تخت پر کسی مجسّمے کی طرح ہوش و خرد سے بیگانی بیٹھی تھی۔ ماسٹر صاحب صحن کے کونے میں وضو کررہے تھے، وہ بہت بوڑھے اور کم زور ہوگئے تھے۔ مسجد جانے کے لیے دروازے سے نکلتے ہوئے اُن کے منہ سے بے ساختہ ’’اللہ‘‘ کی صدا بلند ہوئی، جس نے ہم سب کو تڑپا کے رکھ دیا۔

یقین مانیں، مَیں نے اس سے زیادہ دل دوز ’’آہ‘‘ آج تک نہیں سُنی! وہ منظر آج بھی میری آنکھوں میں ٹھہرا ہوا ہے اور شاید مرتے دَم تک ٹھہرا ہی رہے گا۔ (شاہین کمال، کیلگری، کینیڈا)