صیہونیت کے ایشو پر غور کرتے ہوئے اِس امر کا تعیّن ضروری ہے کہ یہ کسی قوم پرستانہ فکر کا نتیجہ ہے یا کہ خالص مذہبی عقائد کی پیداوار۔یہ تاثر شاید پوری حقیقت نہ ہو کہ یورپ میں قوم پرستی(Nationalism) کی تحریک نے یہودی ذہن کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں ایک صیہونی ریاست قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا، لیکن انیسویں صدی کے جس زمانے میں’’نپولین ازم‘‘ کے زیرِ اثر یورپ میں قومی مفادات کی بنیاد پر وطن کی تشکیل کا تصوّر عام ہوا اور یورپی اقوام روشن خیالی (Enlightenment)، جمہوریت، عدل، انسانی حقوق، تمام شہریوں کی برابری وغیرہ کے تصوّرات کو اپنا امتیاز ظاہر کرتی تھیں، یہودیوں کے ساتھ حقارت، توہین اور ظلم و زیادتی کا برتائو کیا جاتا تھا اور یہی وہ عرصہ تھا، جب مشرقی یورپ کے ممالک نے روس اور عثمانی خلافت سے آزادی کی جدوجہد شروع کی۔
یہودیوں کی کتنی بڑی تعداد روس اور مشرقی یورپ میں آباد تھی،اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی سیاست میں متعدّد نمایاں شخصیات مشرقی یورپ سے اسرائیل منتقل ہوئی تھیں۔ اِس وقت تک اسرائیل میں جو14 وزرائے اعظم سریر آرائے اقتدار ہوئے ہیں، اُن میں سے9 کا تعلق روس، پولینڈ، یوکرین، لتھوانیا وغیرہ، یعنی مشرقی یورپ سے تھا۔ ان میں سے بعض ممالک روس کے تابع تھے اور کچھ عثمانی خلافت کے قبضے میں تھے۔
یہودی مشرقی یورپ کب گئے؟
یہودیوں کی مُلک مُلک ٹھوکریں اور مختلف علاقوں میں منتقلی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ 7عیسوی میں ہیکلِ سلیمانی کے دوسری بار اور اِس وقت تک آخری انہدام کے بعد، اُن کی بہت بڑی تعداد فلسطین سے فرار ہو کر بکھر گئی تھی۔
صلیبی جنگوں میں عیسائی جہاں مسلمانوں کو مارتے تھے، وہاں یہودیوں کے گھر بار لُوٹتے، مَردوں کو قتل اور عورتوں کی آبروریزی کرتے تھے۔ یہ سلسلہ شام اور فلسطین کے رومی سلطنت چھِننے اور مسلمانوں کے قبضے میں آنے تک جاری رہا۔جب اندلس میں اُموی سلطنت قائم ہوئی، تو یہودیوں نے وہاں امن اور آسودگی کے امکانات دیکھے اور اُن کی بہت بڑی تعداد وہاں منتقل ہو گئی۔
یہاں یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ یہودیوں کو امن و آشتی، استحکام و استقرار اور مادّی ترقّی کے جتنے مواقع اندلس کی اُموی سلطنت اور تُرکی کی عثمانی خلافت میں حاصل ہوئے، وہ اس سے پہلے کہیں نہیں ملے تھے،لیکن2 جنوری1492 ء کو سقوطِ غرناطہ کا المیہ وقوع پذیر ہوا۔
آٹھ سو سال کی عظیم مسلمان حکومت ختم ہوگئی اور اندلس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔جب عیسائیوں نے پورے اندلس کو فتح کر لیا، تو جہاں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے، وہیں یہودی بھی بدترین عیسائی تعصّب، جور و جفا اور قتل و غارت کا نشانہ بنے۔
عیسائی بادشاہ، فرڈیننڈ اور اس کی ملکہ، آزا بیلہ نے ’’فرمانِ الحمرا‘‘ کے نام سے ایک حُکم نامہ جاری کیا، جس کے تحت یہ قرار دیا گیا کہ مسلمان اور یہودی دونوں قوموں کے جو لوگ اندلس میں رہنا چاہتے ہیں، اُنہیں عیسائی مذہب اختیار کرنا ہوگا۔ تین لاکھ یہودیوں میں سے دو لاکھ نے جلاوطنی سے بچنے کے لیے رومن کیتھولک عیسائی عقیدہ اختیار کر لیا۔
باقی تقریباً ایک لاکھ یہودی اندلس سے نکل کر پہلے جرمنی گئے، پھر وہاں سے اکثر نے مشرقی یورپ کا رُخ کیا اور بہت محدود تعداد مغربی یورپ کی طرف گئی۔ مشرقی یورپ میں جب عثمانی خلافت سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں، تو یہودیوں کو احساس ہوا کہ یہ مُلک عثمانی خلافت کے تسلّط سے نکل کر آزاد ہو گئے، تو یہاں بھی اُن کے ساتھ وہی سلوک ہوگا، جو مغربی یورپ میں ہوتا رہا ہے، چناں چہ اُنہوں نے قوم پرستی کی بنیاد پر جُدا وطن کا راستہ اختیار کیا۔
تھیوڈر ہرزل اور اسرائیلی ریاست کا منصوبہ
یہاں یہ بات واضح کر دی جائے کہ زارِ روس، شہنشاہ الیگزنڈر ثانی کا یہودیوں کے ساتھ رویّہ نرمی اور مہربانی کا تھا۔اُس کے عہد میں ان کے ساتھ روسی مقبوضات کے اندر معاشروں میں ہم آہنگی اور انضمام کی پالیسی اپنائی گئی تھی تاکہ یہ اپنی مذہنی رسومات پر عمل کی آزادی کے ساتھ ان معاشروں میں جذب ہو جائیں، لیکن یہودیوں کو اپنی خصوصیات اور روایات سے دست بردار ہونا اور اپنی شناخت کھونا گوارا نہ تھا۔یکم مارچ 1881ء کو جب زار الیگزنڈر ثانی کو قتل کر دیا گیا اور نئی حکومت آئی، تو روس کی اشرافیہ اور بالائی طبقات میں یہودیوں سے نفرت و بے زاری کا کُھلم کُھلا اظہار ہونے لگا۔
یہیں سے مشرقی یورپ کے یہودیوں میں اپنے لیے الگ وطن کا خیال گہرا ہونا شروع ہوا۔ وہ ایشیا، افریقا، مشرقی و مغربی یورپ، یہاں تک کہ نوآباد خطّے، امریکا کے کسی حصّے پر بھی دعویٰ نہیں کر سکتے تھے کہ یہ اُن کا وطن ہے۔چناں چہ اُن کی نظریں فلسطین کی طرف اُٹھیں اور اُنھوں نے وہاں یہودی ریاست کے قیام سے متعلق سوچنا شروع کیا۔
جہاں تک یہودی قومی وطن کی تحریک کا تعلق ہے، تو انیسویں صدی کے وسط تک تھیوڈر ہرزل سے کافی پہلے پولینڈ، یوکرین اور جرمنی میں مختلف اہم پیشوں سے وابستہ چند نمایاں شخصیات نے اِس نظریے کے لیے فکری مواد فراہم کرنے میں نقیب اور پیش رَو کا کردار ادا کیا۔
اِس ضمن میں زیوی ہرش کلشر(Zvi Hirsh Kalischer)، ربی یہود لیون پنسکر (Leon Pinsker) اور احد آحام (Ahad Aham) کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ معروف یہودی مؤرخ اور اسکالر، جیکب کیٹز (Jacob Katz)نے ربی الکالائی، ربی کلشر،عالیجاہ گٹماشر (Elijah Gutmacher)، سماجی کارکن ڈاکٹر چیم لوریا (Dr. Chaim Luria) اور سوشلسٹ مفکّر موسس ہیس (Mises Hess) کو اِس تحریک کے بانی قرار دیا ہے۔
جیکوب کیٹز نے یہ بھی لکھا ہے کہ 1860ء کے عشرے سے پہلے صیہونی تحریک اور فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنانے کا کوئی تصوّر نہیں تھا۔اِس محقق و مؤرخ کے بقول، یہودی نیشنل ازم دراصل یورپی ممالک میں پروان چڑھنے والے نیشنل ازم کی صدائے بازگشت تھی۔ 1880ء کے عشرے میں صیہونی وطنیت کی تحریک کا ظہور ہوا۔
اِسی عشرے میں یہودیوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ فلسطین گئے اور ساحلی شہر حیفا میں جا کر آباد ہوئے۔ اِسی دوران مال دار یہودیوں نے غریب عرب کاشت کاروں سے اُن کی زمینیں اونے پونے خریدنی شروع کر دی تھیں۔ درج بالا ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرقی یورپ کے یہودیوں میں فلسطین کو یہودی وطن بنانے کا خیال تھیوڈر ہرزل(Theodor Herzl) سے پہلے جنم لے چُکا تھا۔
واضح رہے کہ یہودی عوام دنیا میں بکھرے ہوئے تھے اور ایک قوم کی جو خصوصیات بیان کی جاتی ہیں، وہ اُن میں نہیں تھیں۔ وہ قوم ہونے کا تصوّر فراموش کر چُکے تھے۔ مغربی یورپ کے بنیاد پرست یہودیوں کی خاصی تعداد اسرائیل کے نام سے نئے وطن کے قیام کی قائل نہیں تھی۔
اُن کا خیال تھا کہ اُن کی دربدری اور بے وطنی در اصل اُن کے گناہوں کی سزا ہے اور جب اصل مسیحا کا نزول ہو گا، تو یہ خطائیں معاف ہو جائیں گی، فلسطین میں جانا نصیب ہو گا اور ہیکلِ سلیمانی کی نئے سرے سے تعمیر ہو گی۔ انیسویں صدی میں کچھ فرانسیسی انقلاب اور کچھ نپولین کی چھیڑی ہوئی جنگوں کی وجہ سے یورپ میں نئی فکر اجاگر ہو رہی تھی۔وطنی قومیت کا نظریہ مقبول ہو رہا تھا۔
مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والے یہودیوں میں کئی نظریات کے حامل اہلِ دانش شامل تھے۔ ان میں لبرل اور سوشلسٹ نظریات کے ایسے عملیت پسند افراد شامل تھے، جنہوں نے دنیا کے بدلتے حالات دیکھ کر یہودیوں کی حالت بدلنے کی طرف توجّہ دینی شروع کی۔ اُنھیں روسی انقلاب کی منزل بھی قریب نظر آ رہی تھی، اِس لیے کچھ یہودی اہلِ فکر روس کے انقلابی عناصر سے متاثر اور اُن کے ساتھ رابطے میں تھے۔
احد آحام کا خیال تھا کہ فلسطین میں نوآبادی یا اُسے نئے سرے سے وطن بنانے(colonization)کے لیے ضروری ہے کہ یہودی عوام میں قومی تصوّر پھیلایا جائے۔ وہ کہتا تھا کہ قومی نظریے کا اِتنا زیادہ پرچار کیا جائے کہ یہودی عوام اسے ایک ارفع و اعلیٰ تصوّر کے طور پر قبول کرلیں۔ ایلیزر بن یہودا (Eliezer Yahuda) کا خیال تھا کہ یہودی قومیت کے احیاء کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اپنی زبان ہو۔ چناں چہ اس نے عبرانی زبان کو بول چال کی زبان بنانے کے لیے کام شروع کر رکھا تھا۔
البتہ تھیوڈر ہرزل کا اِس میدان میں امتیاز یہ ہے کہ اس نے اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک تحریک کا آغاز کیا اور اُس کی تحریک میں مغربی یورپ، خاص طور پر برطانوی استعمار نے دل چسپی لینی شروع کردی تھی۔ برطانیہ کے سیکرٹری جوزف چیمبرلین نے1903ء میں یوگنڈا اسکیم کے تحت صیہونی تحریک (Zionism) کے بانی تھیوڈر ہرزل کو پیش کش کی تھی کہ جنوبی افریقا میں پانچ ہزار مربع میل کا وہ خطّہ،جہاں اب کینیا کے نام سے ایک آزاد مُلک ہے، یہودی ریاست قائم کی جائے۔
ایک اسکیم یہ بھی تھی کی شمالی امریکا کے کسی حصّے کو یہودی ریاست کے لیے منتخب کیا جائے، لیکن صیہونیت اور اسرائیلی ریاست کے فکری بانی، تھیوڈر ہرزل کا خیال تھا کہ ایسی وطنیت ناپائے دار ہو گی۔ ساری دنیا اور بالخصوص یورپ میں سامیت مخالف رویّوں سے نجات اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک یہودی فلسطین جا کر اپنی ایک آزاد یہودی ریاست قائم نہ کر لیں۔
یہودیوں نے پہلے تُرکی کے عثمانی خلیفہ، سلطان عبدالحمید ثانی سے یہ درخواست کی کہ فلسطین اُن کے قومی وطن کے لیے اُنہیں دے دیا جائے، اس کے بدلے میں وہ عثمانی خلافت پر قرضوں کے جو بوجھ ہیں، اپنی طرف سے ادا کردیں گے، لیکن سلطان نے اُن کی یہ درخواست مسترد کر دی اور جواب دیا کہ فلسطین فلسطینی عربوں، وہاں سیکڑوں سال سے آباد عرب مسلمانوں، عیسائیوں، دروزوں اور یہودیوں کا گھر ہے۔یہ خلیفہ کے پاس مسلم اُمّت کی امانت ہے،اس کا ایک انچ بھی وہ کسی کو کسی بڑی سے بڑی قیمت پر بھی نہیں دے سکتے۔
سلطان عبدالحمید ثانی کے اِس دوٹوک جواب کے بعد یہودیوں نے ایک اور مکروہ کھیل کا آغاز کیا۔اس کھیل کے دو رُخ تھے۔ایک طرف سلطان عبدالحمید ثانی کو بدنام کرنے اور عثمانی خلافت کا چہرہ بگاڑنے کے لیے پراپیگنڈے کی مکروہ مہم شروع کی گئی، تو دوسری طرف، تُرک اور عرب قوم پرستی کی تحریکوں کی چنگاریوں پر تیل ڈال کر اُنہیں شعلوں میں تبدیل کیا گیا۔ لبنان کے عیسائی بھی عرب قوم پرستی اور تُرک مخالف مہم میں پیش پیش تھے۔اُن کے اثر سے عرب ممالک میں عرب قوم پرستی کے بیج بھی اُگ آئے تھے۔
صیہونیت کے سیاسی تصوّر اور اسرائیلی ریاست کے فکری بانی تھیوڈر ہرزل اورمشرقی یورپ کے روس اور عثمانی خلافت کے مقبوضات سے تعلق رکھنے والے اکثر یہودیوں میں فلسطین کو اپنا آزاد وطن بنانے کا خیال پختہ ہو چُکا تھا۔ ہرزل نے 1896ء میں’’ The State of the Jews‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر اس یہودی قوم پرستی اور وطنی قومیت کے نظریے کو سیاسی جدوجہد کا عنوان بنا دیا، حالاں کہ مغربی یورپ کے اکثر یہودی، مذہبی بنیادوں پر قوم پرستی کے حامی نہیں تھے۔
اُن کی بڑی تعداد نقل مکانی کر کے امریکا میں جا بسی اور امریکی تہذیب و ثقافت اپنا لی تھی۔یہاں تک کہ وہ وہاں غیر یہودیوں سے شادی بیاہ کے رشتوں میں بھی منسلک ہوگئے تھے۔ صیہونی مفکّرین کی تحریروں میں فلسطین کی’’ colonization‘‘ کی اصطلاح بتکرار آ رہی تھی۔ یہ اصطلاح استعماریت کے مترادف کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اِسی لیے عرب دنیا کے اصحابِ نظر اُٹھتے ہوئے بگولوں سے آنے والی آندھیوں کا اندازہ کر رہے تھے۔
وہ محسوس کر رہے تھے کہ صیہونی، فلسطین پر ایک نئے استعمار کی صُورت مسلّط ہونا چاہتے ہیں۔ اُنہیں نظر آ رہا تھا کہ فلسطین کو مصنوعی طور پر اسرائیل کے نام کی ریاست میں بدلنے کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ اُن کے کان یہ آوازیں سُن رہے تھے کہ فلسطین میں آباد ہونا یہودیوں کاحق ہے۔ گویا، سیکڑوں سال سے نسل در نسل اس سرزمین میں آباد عرب فلسطینیوں کو اُن کی مرضی کے خلاف کوئی یہودی جس وقت چاہے، وہاں سے نکال کر خود اسرائیلی شہری بن سکتا ہے۔