دنیا میں اِس وقت سب سے زیادہ دُہرایا جانے والا لفظ’’فلسطین‘‘ ہے۔ وحشت و درندگی ، بہیمیت اور بے حِسی کا جیسا کھیل اُس کے ایک حصّے، غزہ میں وہ قوم کھیل رہی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے کبھی بڑی بلندی اور فضیلت عطا کی تھی۔ اسے اِمام و رہبر بنا کر دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ سونپا تھا، لیکن اُس قوم کے اندر بگاڑ اور فساد پیدا ہوا، اُس کی فطرت مسخ ہوئی، اُس نے اللہ اور اُس کے پیغمبروںؑ سے سرکشی کو اپنا شعار بنا لیا۔
پیغمبروںؑ کے قتل سے نہ صرف یہ کہ دریغ نہیں کرتی تھی بلکہ انبیائے کرامؑ کو قتل کر کے اس فعل پر فخر بھی کرتی۔ اِسی بدخصلتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُسے دنیا کی اِمامت سے معزول کر دیا اور اس منصب پر سیّدنا محمّد مصطفیٰ ﷺ کی اُمّت کو مامور فرما دیا۔ اس قوم کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر اسے ذلّت و مسکنت سے دوچار کیا اور زمین پر دھکّے کھانے اور ہر مُلک و قوم کے ہاتھوں ذلیل و خوار کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
طالوت، حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہم السّلام کے اَسّی، نوّے سالہ اقتدار کے سِوا، کم و بیش دو ہزار سال تک یہ دنیا میں ٹھوکریں کھاتی رہی۔انیسویں صدی کے آخر میں یہ قوم فلسطین کی مالک و حاکم ہونے کی دعوے دار بنی اور برطانیہ اور امریکا کی مدد سے اس نے فلسطین کے اصل باشندوں سے اُن کی سرزمین چھین کر1949 ء میں وہاں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز ریاست قائم کر لی۔
فلسطین کی اوّلین آبادی
سرزمینِ فلسطین کے آثار سے متعلق جو انکشافات ہوئے ہیں، اُن سے پتا چلتا ہے کہ جنوبی صرہ میں کوہِ قفزہ اور طبریا کے قریب ساڑھے سات ہزار سے تین ہزار قبلِ مسیح تک کے درمیانی عرصے میں انسانی آبادی موجود تھی۔اریحا کا شہر آباد ہونا اس کی ایک بڑی شہادت ہے، جو مؤرخین کے نزدیک دنیا کا قدیم ترین شہر تھا۔ اس کے آثار عین السلطان کے قریب ملے ہیں۔
چوتھی صدی کے جو برتن ملے، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں تانبے کے برتن اور دیگر مصنوعات عام تھیں۔ عام تصوّر یہی ہے کہ تین ہزار قبلِ مسیح میں کنعانی یہاں آ کر آباد ہوئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے کافی پہلے قحطانی عربوں کے بعض قبائل اِس سرزمین کو اپنا مسکن بنا چُکے تھے۔ یہاں کنعانی، عربی اور ارامی زبانیں بولی جاتی تھیں۔(فلسطین انسائیکلو پیڈیا) الجزیرہ کے ایک مضمون نگار، فاضل الربیعی کی رائے ہے کہ فلسطینی کنعانی نہیں تھے۔
ارامی نسل شمالی شام، دجلہ و فرات کے شمال مغربی علاقے اور شمالی اردن کے کچھ حصّوں سے تعلق رکھتی تھی۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام جب اپنے آبائی شہر’’اُر‘‘ سے ہجرت کر کے کنعان میں آ بسے تھے، تو یہاں ارامی، عربی اور سریانی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ عبرانی، ارامی زبان ہی کی شاخ ہے۔
فلسطین پر اس قوم کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السّلام عراق کے شہر’’اُر‘‘ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ اُنھوں نے اپنی بیوی، حضرت ہاجرہؑ اور اپنے بڑے بیٹے، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو عرب کی ایک غیر ذی زرع وادیٔ مکّہ میں آباد کیا اور خود اپنی پہلی بیوی حضرت سارہؑ اور بیٹے حضرت اسحاق علیہ السّلام اور اُن کی اولاد کے ساتھ کنعان میں بس گئے تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پڑپوتے، حضرت یوسف علیہ السّلام کو جب مصر میں اقتدار ملا، تو اُنہوں نے اپنے والدِ گرامی، حضرت یعقوبؑ، والدہ، تمام بھائیوں اور اُن کے کنبوں کو مصر بُلا لیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر لے جائے گئے، اُس وقت وہاں چرواہے بادشاہوں کی حکومت تھی۔
چرواہے بادشاہوں کا اصل تعلق فلسطین سے تھا۔اُن کے اقتدار میں اولادِ یعقوبؑ (بنی اسرائیل) اطمینان کی زندگی گزارتے رہے، لیکن جب مصر میں قبطی قوم کے فرعون خاندان کی بادشاہت قائم ہوئی، تو قبطیوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا۔ اِس طرح اُن کا فلسطین سے تقریباً چار، پانچ سو سال تک تعلق ٹوٹا رہا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السّلام اس قوم کی طرف مبعوث ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے بھی تقریباً چالیس سال بعد بنی اسرائیل دوبارہ فلسطین میں داخل ہوئے۔
اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہ قوم فلسطین میں رہ کر دنیا میں آسمانی ہدایت پھیلائے، لیکن اس قوم نے ضلالت و گم راہی،مادّہ پرستی، دنیا کی حرص و ہوس، سرکشی، بغاوت، ظلم و سفّاکی اور جور و جبر کی روش تَرک نہ کی۔شورش، بغاوت، بدعہدی اور فتنہ و فساد اس کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتے تھے، جن کی وجہ سے اس پر بار بار اللہ کے غضب کے تازیانے برسے اور مختلف اقوام کے ہاتھوں اسے بار بار دربدر ہونا اور فلسطین چھوڑنا پڑا۔
صلیبی جنگوں اور اسپین سے مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت ختم ہونے پر اُن پر بھی مصائب آئے تھے، لیکن بارہویں صدی سے پندرہویں صدی تک نقل مکانی (Diaspora)کی جتنی گردشیں یہودی قوم کو دی گئیں، کسی اور قوم نے غریب الوطنی کے اِتنے زخم نہیں کھائے۔ فلسطین سے روس اور مشرقی یورپ کے ممالک پولینڈ، ہنگری، بیلاروس، لِٹوانیا، رومانیہ وغیرہ میں جا کر آباد ہوئے۔
بیسویں صدی میں ایک نئے Diaspora یعنی اسرائیل کی طرف نقل مکانی کے وقت تک چھے ملین یہودی مشرقی یورپ میں آباد تھے۔ پولینڈ نے تو اُن کی امن و سلامتی اور سہولت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے باقاعدہ قانون بنا دیا تھا۔ وہ ’’یِدِّش‘‘(Yiddish)زبان بولتے تھے۔ یہ زبان ان میں نویں صدی میں رائج ہوئی۔ عبرانی زبان، جو اب اسرائیل کی قومی اور سرکاری زبان ہے، اُس وقت صرف ایک مقدّس زبان کی حیثیت رکھتی تھی اور مخصوص اہل عِلم و ادب اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے لیے اسے استعمال کرتے تھے۔
اُنہوں نے لباس میں بھی اپنا امتیاز قائم رکھا ہوا تھا۔مرد سَر پر ہَیٹ یا یہودیوں کی مخصوص ٹوپی پہنتے اور اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد وزرائے اعظم، صدور اور وزراء میں کئی نمایاں نام اُن کے تھے، جو روس اور مشرقی یورپ سے نقل مکانی کر کے اسرائیل آئے تھے۔ اگرچہ اُن کی خاصی تعداد امریکا، وسطی اور مغربی یورپ میں بھی منتقل ہوئی تھی، لیکن وہاں اُن کے لیے سخت نفرت اور تذلیل و تعذیب کا ماحول تھا۔
سامیت کا دعویٰ
سامیت (Semitism) ایک خاص نسل سے تعلق رکھنے والی لُغوی اصطلاح ہے۔حضرت نوح علیہ السّلام کے تین بیٹوں میں سے ایک کا نام سام تھا۔ لفظ ’’سامی‘‘ سام کی نسل کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن مغرب کے اہلِ عِلم اور اصحابِ دانش و فکر ہی نے نہیں، بلکہ اہلِ لُغت تک نے بھی اسے یہودیت سے جوڑ دیا۔ آکسفورڈ ڈکشنری اس اصطلاح کے معنی لکھتی ہے: The fact or quality of being Jewish: Jewsishness یعنی یہودی ہونے کی حقیقت یا خصوصیت، یا بالفاظِ دیگر یہودیت۔
ایک دوسری بہت مقبول اور مشہور ڈکشنری’’Merriam Webster ‘‘نے بھی اس اصطلاح کو سام سے متعلق ظاہر کرنے کی بجائے یہودیت سے جوڑتے ہوئے لکھا:Policy or disposition favorable to Jews: یعنی ایسا میلان، خصلت ، رغبت، رجحان جو یہودیوں کے حق میں یا اُن کے لیے مفید ہو۔ موجودہ دَور میں ’’سامیت‘‘ مخالف (anti-Semitism) کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔
یہودیوں نے اسے’’نازی جرمنی کی دہکائی ہوئی آتشی بھٹیوں میں چھے ملین یہودیوں کو بھسم کرنے‘‘(Myth of Hollowcaust) سے انکار کی طرح یہودیوں کی سامیت سے انکار کو بھی امریکا اور اپنے مغربی سرپرستوں کی مدد سے ایک بہت بڑا جرم بنا دیا ہے۔اُن کے شر اور فساد، اُن کی بداعمالیوں، دجل وفریب، مکّاری اور چال بازی کا ذکر کریں، تو وہ اسے سامیت کی مخالفت قرار دے کر جرم بنا دیتے ہیں۔
سامیت کی حقیقت سے متعلق ہمارے مؤرخین نے جو حقیقت بیان کی ہے، اُس کے لحاظ سے عرب بھی سامی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابنِ جریر طبری نے اپنی تاریخ میں اور ابنِ اثیر نے’’الکامل فی التّاریخ‘‘میں وہب بن منبہ کا قول نقل کیا ہے کہ سام بن نوحؑ عربوں، فارسیوں(ایرانیوں)، روم یعنی شامیوں (بشمول فلسطین)کے جدّ ِامجد تھے۔
حام کی اولاد میں مصر کے قبطییوں اور سوڈان سمیت افریقی ممالک تھے اور ترکستان(بشمول ترکی، روسی و چینی ترکستان) اور تاتاری یافث کی اولاد سے ہیں۔ ابنِ اسحاق اور ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ عاد و ثمود، بنی اسماعیلؑ میں عرب المعربہ، اہلِ حجاز، شام، وادی القُریٰ، یمامہ، بحرین، عمان وغیرہ سب سام کی نسل سے تھے۔
ابنِ کثیر نے البدایۃ والنّہایۃ میں اِمام احمد ؒ کی ایک روایت نقل کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سام ابوالعرب تھے۔ حام ابوالحبش اور یافث ابو الرّوم، یعنی یونان سمیت یورپ کی سفید فام اقوام اُن کی اولاد ہیں اور حبش سے سیاہ فام افریقی اقوام مُراد ہیں۔ ترمذی میں ایک روایت درج ہے کہ سام عربوں کے باپ تھے، حام ابو الحبش یعنی ایتھوپیا اور افریقا والوں کے باپ تھے۔یافث رومیوں(یونان اور یورپی اقوام) کے باپ تھے۔
العراقی نے محجّۃُ القُرب میں اسی سے ملتی جُلتی روایت نقل کی ہے۔ اِن تاریخی شواہد سے یہودیوں کا یہ دعویٰ باطل قرار پاتا ہے کہ تنہا وہی سامی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو چیز وہ اپنے حق میں جرم سمجھتے ہیں،وہی زبان، رویّہ، سوچ اور عمل وہ خود عربوں کے خلاف ظاہر کریں، تو یہ بھی جرم ہے۔
یاد رہے، اسلام نے حسب نسب کی بجائے تقویٰ کو فضیلت کی بنیاد قرار دیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو جب سارے انسانوں کا اِمام ہونے کی سند عطا فرمائی گئی تھی، تو اُنہوں نے عرض کیا تھا کہ کیا یہی فضیلت میری ذُریّت کو بھی حاصل ہو گی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ ترجمہ: ’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔‘‘
یہودی جو ظلم اہلِ غزہ اور فلسطین پر ڈھا رہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں، اس کے بعد اُن کا محض سام کی نسل سے ہونے کی بنیاد پر برتری کا زعم سراسر خود فریبی ہے۔ سیّدنا حضرت محمّد ﷺ بھی اِسی طرح حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سے تھے، جس طرح حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے دیگر انبیائے کرامؑ، اولادِ ابراہیمؑ سے تھے۔
یہاں یہ ذکر کر دینا بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اسرائیل کے اندر ایک معروف یہودی اسکالر، شلومو ساند نے کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب لکھی، جس کا انگریزی ترجمہ’’ Invention of the Jewish People‘‘کے نام سے ہوا، اِس میں مصنّف نے واضح کیا کہ موجودہ یہودی، جن کی اکثریت روس اور مشرقی یورپ سے ہجرت کر کے اسرائیل آئی، ڈی این اے کے لحاظ سے خالص سامی نسل کے رہے ہی نہیں، بلکہ کئی نسلوں اور جنسوں کے امتزاج سے وجود میں آئے ہیں۔
کتاب کا مصنّف خود پولینڈ سے 1948ء میں اسرائیل آیا اور یافا میں آباد ہوا۔تل ابیب یونی ورسٹی سے بیچلرز ڈگری لی، پھر فرانس چلا گیا، وہاں تعلیم مکمل کی اور کئی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیتا رہا۔ اس کے بقول، یہ سامیت اور نسلیت کا ایشو انیسویں صدی میں تراشا گیا تاکہ اسرائیل کی وطنیت اور یہودیوں کی نسلی قومیت کے افسانے (myth) کو حقیقت ثابت کیا جائے۔