اسراف اور نمودونمائش سے گریز، سادگی اور سادہ طرزِ زندگی
اسلامی ریاست کے سربراہ اور حاکمِ وقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسراف، نمود و نمائش سے احتراز کرے، سادگی اور سادہ طرزِ زندگی اختیارکرے۔ نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی مبارک زندگیاں بہت ہی سادہ اور غیر ضروری تکلّفات سے خالی تھیں اور یہی وہ بنیادی صفت ہے، جس سے مسلمان حکم رانوں اور اغیار کے مابین امتیاز ہوجاتا ہے۔
بعثتِ نبویؐ سے قبل وقت کے حکم ران، سلاطین سرکاری مناصب و ذرائع کے غیر ذمّے دارانہ استعمال کے باعث شاہانہ شان و تجمّل سے اونچے اونچے محلوں اور ایوانوں میں بڑے قیمتی ملبوسات، سونے چاندی، زر و جواہر سے آراستہ ہوکر اونچے اونچے بیش بہا تخت پر متمکن ہوا کرتے۔ وزراء تک سونے، چاندی کی مرصّع کرسیوں، ریشمی گدّوں پر بیٹھتے، لیکن آنحضرت ﷺ کی تعلیمات نے بہ یک جنبشِ قلم ان مصنوعی تفرقوں کو مٹا دیا۔
نشست و برخاست کے لیے سونے، چاندی کا سامان اور ریشمی لباس و فرش حرام کیے گئے۔ (سیّد سلیمان ندوی/سیرت النبیﷺ، لاہور، الفیصل ناشران، 7/44,43)۔ آنحضرت ﷺ جب صحابہؓ کی مجلس میں بیٹھتے، تو باہر سے آنے والوں کو پوچھنا پڑتا کہ محمد ﷺ کون ہیں؟ لوگ اشارے سے بتاتے۔ صحابۂ کرامؓ نے چاہا کہ کم از کم ایک چبوترا ہی بنادیا جائے، جس پر آپؐ جلوہ افروز ہوں، مگر اُسے بھی آپؐ نے پسند نہیں فرمایا۔ (ایضاً44/7)۔
’’بیت المال‘‘ قومی خزانے کا تحفّظ
اسلامی ریاست کے قائدو حاکم کی یہ دینی اور قومی ذمّے داری ہے کہ وہ بیت المال آج کی اصطلاح میں قومی خزانے کو امانت سمجھے اور اس کی حفاظت کے لیے دیانت و امانت کے تمام تقاضے پورے کرے۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’کوئی حکم راں، جو مسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو، اگر اس حالت میں مرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکا اور خیانت کرنے والا تھا، تو اللہ اس پر جنّت حرام کردے گا۔(بخاری، محمد بن اسماعیل/ الجامع الصحیح، کتاب الاحکام، باب8۔ مسلم، کتاب الامارہ باب5)۔
اسی طرح امام الانبیاء ﷺ کا ایک اور ارشاد ِگرامی ہے۔’’کوئی حاکم، جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے، پھر اس کی ذمّے داریاں ادا کرنے کے لیے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے، وہ مسلمانوں کے ساتھ جنّت میں قطعاً داخل نہیں ہوگا۔‘‘(مسلم بن حجاج القشیری/ الجامع الصحیح، کتاب الامارہ، باب5)۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا۔’’اے ابوذر! تم کم زور آدمی ہو اور حکومت کا منصب ایک امانت ہے، قیامت کے روز وہ رسوائی اور ندامت کا موجب ہوگا، سوائے اس شخص کے، جو اس کے حق کا پورا پورا لحاظ کرے اور جو ذمّے داری اس پر عائد ہوتی ہے، اسے ٹھیک ٹھیک ادا کرے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔’’کسی حاکم کا اپنی رعیت میں تجارت کرنا بدترین خیانت ہے۔‘‘ (کنزالعمال،جلد4، صفحہ78)۔
بُردباری، صبر و ضبط، تحمّل و برداشت
حضرت علیؓ کا فرمان ہے۔’’جس نے حلم اور برداشت کا مادّہ اپنا لیا، وہ سردار بن گیا اور جس نے علم حاصل کیا، اُس کی عزت میں اضافہ ہوگیا۔‘‘ ( المنھج المسلوک، ص 336)یعنی دینِ اسلام میں بُردباری، صبر و ضبط، تحمّل و برداشت اور عفو و درگزر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
یہ اعلیٰ اوصاف ایمانِ کامل کی علامت اور بندگی کی پہچان ہیں اور قرآن و حدیث، اسوۂ رسول، تعلیماتِ نبویؐ اور پیغمبرِ رحمت، محسنِ انسانیت، حضرت محمدﷺ کی حیاتِ طیّبہ اس حوالے سے روشن مثال ہیں۔
عوام کی جان و مال، عزّت و آبرو کا تحفّظ، ملکی سلامتی کو یقینی بنانا
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، (بخاری ،محمد بن اسماعیل /الجامع الصحیح کتاب الاحکام باب اطیعوا اللہ) 2/57)یہ حدیث ’’صحیح بخاری‘‘ میں آٹھ مقامات پر جداجدا سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔’’اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے ہر ایک نگران اور ذمّے دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پُرس کی جائے گی، جو حکم راں لوگوں پر حکومت کرتا ہو، وہ نگراں اور ذمّے دار ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پُرس کی جائے گی۔ دوبارہ سن لو کہ تم میں سے ہر ایک حکم ران اور نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔‘‘ ’’راعی‘‘ رعی سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں، حفاظت اور نگرانی کرنا۔
چرواہے کو ’’راعی‘‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مویشیوں کی حفاظت اور درندوں سے ان کا تحفّظ کرتا ہے، اسی طرح حکم راں بھی اپنی رعایا کے حقوق کے تحفّظ اور بیرونی و اندرونی دشمنوں سے ان کی حفاظت کا ذمّے دار ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے ائمۂ لغت نے ’’راعی‘‘ کے معنیٰ حاکم بھی بیان کیے ہیں۔
حکم ران کے بغیر عوام کی مثال ایسی ہے جیسے چرواہے کے بغیر مویشی، جو آوارہ پھر رہے ہوں۔ اس تشبیہ نبویؐ سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان اور عوام کے حقوق کی ادائی (ان کی جان و مال، عزت و آبرو اور ملک و ملّت کا تحفّظ) اسلامی ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔
…خلاصۂ بحث…
سرورِ کونین، فخرِ موجودات، سرورِکائنات، سیّد عرب و عجم، حضرت محمدﷺ کی حیاتِ طیّبہ، آپؐ کی سیرتِ مبارکہ، اسوۂ حسنہ اور بے مثال قیادت پر جس قدر غور کیا جائے، آپﷺ کی عظیم الشّان شخصیت نگاہِ عقیدت کے سامنے آراستہ ہوکر سامنے آتی ہے۔
بالخصوص ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے قائد اور پہلی اسلامی فلاحی مملکت کے عظیم حکم راں کے طور پر آپﷺ نے قیادت و سیادت عدل کی بالادستی، قانون کی حکم رانی، بنیادی انسانی حقوق کے تحفّظ اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ کا جو بے مثال نمونہ پیش فرمایا، وہ پوری انسانی تاریخ میں ہر لحاظ سے سب سے معتبر، منفرد اور بے مثال ہے۔ ریاستِ مدینہ کی صُورت اسلامی حکومت کی تاسیس عمل میں آئی۔
جو دنیا میں سب سے بُرے تھے، وہ سب سے اچھے ہوگئے، جو بُرے کاموں کے لیے مشہور تھے، ان کے سب امور اچھے ہونے لگے۔ خدا کی شان ہے کہ پلک جھپکتے ہی ساری دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا کہ اس سے بہتر انقلاب نہ تاریخ نے دیکھا اور نہ ہی روزِ حشر تک دیکھے گی۔
مغرب کا نام ور مورّخ اور مشہور دانش وَر ول ڈیورانٹ اپنی کتاب ’’ہیروز آف ہسٹری‘‘ میں محسنِ انسانیت، پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے طرزِ حکم رانی اور آپؐﷺ کی سیادت و قیادت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے۔’’اگر ہم تاریخ پر اثرات کے حوالے سے تجزیہ کریں، تو آپﷺ کا کوئی ثانی نہیں۔
آپؐ نے جاہلیت کی دلدل میں دھنسے لوگوں کو روحانی اور اخلاقی رفعت سے ہم کنار کیا اور کسی بھی دوسرے مصلح یا پیغمبر کی نسبت کہیں زیادہ کام یاب رہے۔ تاریخِ انسانی کا شاید ہی کوئی اور شخص کبھی اپنے خوابوں کو اس قدر بھرپور انداز میں تعبیر دے سکا۔ آپؐ نے عربوں کو تہذیب کے ساتھ ساتھ ایک نیا مذہب بھی دیا۔‘‘
مغرب کے قلم کاروں میں ایک نام وَر شخصیت باسورتھ اسمتھ (Bosworth Smith) کی ہے۔ وہ سیرتِ طیبہ پر اپنی تحریر کردہ کتاب’’محمد ؐ اور محمڈن ازم‘‘ (Muhammad and Muhammadan ism)میں لکھتا ہے۔’’وہ (محمدﷺ) دین و دنیا دونوں کے سردار تھے۔ وہ شاہ بھی تھے اور مذہبی پیشوا اور دینی رہنما بھی۔ وہ دلوں کے بادشاہ تھے۔ ان کی فرماں روائی لوگوں کے سَروں پر نہیں، دِلوں پر تھی۔
ایسے بادشاہوں کو کسی سج دھج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دنیا کے بڑے بڑے فرماں روا۔ سیزر، کرام ویل اور نپولین بونا پارٹ جیسے آمر حکم راں اپنی ظاہری شان و شوکت سے نہ بچ سکے، مگر محمد (ﷺ) ایسی ظاہری کھوکھلی شان و شکوہ سے پاک تھے۔ وہ درویش بادشاہ تھے اور سادگی اور قناعت ان کا شیوہ تھا۔‘‘
مغرب کا نام وَر ادیب سرجارج برنارڈشا(George Bernard Shaw)نے ایک موقعے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ’’میرا ایمان ہے کہ اگر اُن جیسا (محمد ﷺ جیسا) جیسا انسان، آج دنیا کا اقتدار سنبھال لے، تو دنیا کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ اس طرح کہ دنیا امن و خوش حالی سے بہرہ ور ہوجائے گی اور محمد (ﷺ) کا دین، تمام یورپ میں مقبول ہوجائے گا، کیوں کہ ان کے دین (دینِ اسلام میں) یہ صلاحیت موجود ہے۔‘‘
سرکارِ دو جہاں، ختمی مرتبت، محسنِ انسانیت، سرورِ کونین، حضرت محمدﷺ نے بے مثال قائد اور عظیم سیاسی مُدبّر و عاملِ حکومت کی حیثیت سے انسانی سوسائٹی کی تشکیل کی۔ مختصر یہ کہ پیغمبری، قیادت و حکم رانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا، جس کے لیے آپ ﷺ نے کوئی اصول اور قانون نہ پیش کیا ہو۔
تاریخی حقائق اس امَر کا قوی ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سیاست و ریاست کے انداز و اسالیب میں انقلابی تبدیلیاں فرمائیں اور سخت انتشار، بلکہ نراج کے پس منظر سے سیاسی اتحاد کو ابھارا۔ جس وقت دنیا کے تمام متمدّن و مہذّب ممالک سیاسی طوائف الملوکی، معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی تنزّل کا شکار تھے، ایسے عالم میں رسول اللہ ﷺ نے خالص عقیدے کی بنیاد پر ایک بے مثال معاشرے کی تشکیل کی۔
اسے دین کے مثبت اصولوں پر ترقی دی، اخوت، مساوات اور ہم دردی و تعاون کے رشتوں سے مضبوط و مستحکم کیا اور پھر اس تنظیم پر بالآخر ایک ریاست کو وجود بخشا۔ ریاست کے باب میں سب سے اہم تغیّر یہ تھا کہ آپؐ نے شہنشاہیت اور مطلق العنانیت کے نقوشِ کہنہ کو محو کرکے حاکمیتِ باری تعالیٰ کا نقشِ تازہ ثبت کیا۔
حکم رانوں کو الُوہیت و اوتار کی مسندوں سے اتار کر عام انسانوں کے برابر کھڑا کیا اور جبر و استبداد، ظلم و ناانصافی، استحصال، خیانت، دغا بازی، کُشت و خون، فتنہ و فساد اور دھوکا و فریب کے بجائے حریتِ فکر و عمل، تقویٰ، امانت و دیانت، شوریٰ، امن و صلح، نظم و ضبط، عدل و انصاف، مساوات، رواداری کی شان دار روایات زندہ و تابندہ کیں۔ حالاں کہ اس وقت دنیا میں دین و سیاست کی تفریق عام تھی۔
یہ ایک غیر معمولی کارنامہ، ایک انقلاب تھا، جسے روسو (ROUSSEAU) جیسے مفکّرِ سیاسیات نے بھی محسوس کیا۔ علاوہ ازیں، اس سیاسی نظام کو رسول اللہ ﷺ نے اس سرزمین پر جاری و ساری کیا، جس کی تاریخ میں ایک متحد سیاسی نظم یا ہمہ گیر ریاست کا قیام کبھی نہ ہوا تھا۔ وہ لوگ ایک پرچم تلے آگئے، جنہوں نے کسی قوتِ قاہرہ کے آگے جُھکنا سیکھا ہی نہ تھا، جن کی سرشت میں سرکشی، خود سری اور آزادی کے عناصر داخل تھے۔
بلاشبہ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے قیام اور اسلامی تاریخ کی پہلی اسلامی فلاحی مملکت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے سرکارِ دو عالم حضرت محمدﷺ نے متعدّد حکیمانہ تدابیر اختیار کیں، جن میں سے ہر ایک تدبیر انقلاب کی طرف بھرپور پیش قدمی کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس انقلابی جدوجہد میں آپ ﷺ نے قیادت کا یک سر ایک نیا معیار مقرر فرمایا۔ وہ قیادت، جو اپنے ساتھیوں کے دلوں پرمتمکن تھی۔
جس سے لوگوں کو والہانہ محبت تھی، جس کی شفقت، محبت، بصیرت، رہنمائی اور دانائی پر سارے ہی قافلے کو بھرپور اعتماد تھا۔ حضوراکرم ﷺ اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے کسی نشانِ عظمت سے پہچانے نہیں جاتے تھے۔ آپ ﷺسب میں سے ایک تھے۔ سب کے ہم درد، سب کے بہی خواہ اور سب کے لیے مربّی اور سرپرست۔ اور یہ حضورِاکرمﷺ کی بے مثال قیادت و حُکم رانی، حکمتِ قیادت ہی کا معجزہ تھا کہ چند برسوں میں آپ ﷺ نے بہترین صلاحیتوں کا حامل انسانی سرمایہ (لیڈر شپ) جمع اور تیار کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ اس کی تیاری میں آپ ﷺ نے اپنی عظیم شخصیت کا جوہر ایک ایک ساتھی میں اتارنے کی سعی کی۔ انہیں سفر میں، حضر میں، مسجد میں، بازار میں، گھر میں، پردیس میں، ہر جگہ اور ہر حالت میں نئے نظام کی ذمّے داریاں اُٹھانے کے لیے تیار کیا۔
سچّی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں حضوراکرم ﷺ وہ واحد حقیقی لیڈر اور قائد انقلاب ہیں، جنہوں نے دنیا کی تشکیل کا پرانا ڈھانچا یک سر بدل کے رکھ دیا۔ دنیا کو سب کچھ بالکل نیا دیا۔ آپ نے دنیا کو ایک نیا نظام، نیا معاشرہ، نیا ضابطہ اور نیا انسان دیا۔ ایسا نیا انسان، جو اللہ کی خوش نودی کا مظہر، اس کی بندگی اور عبادت کی علامت ہے، جس کا نام ہی اطاعتِ الٰہی کا نشان ہے۔ ظلمتوں، تاریکیوں اور گم راہیوں سے بھری ہوئی دنیا میں سرورِ کائناتﷺ کا وجود روشنی کا ایک ایسا مینار ہے، جو عالمی قیادت کےلیے ایک بے مثال نمونہ ہے۔
سو، اس ضمن میں قافلہ انسان پر لازم ہے کہ اِسی روشن مینار سے روشنی کی بھیک طلب، راہِ راست تلاش کرے کہ ہر چشمِ بصیرت کو یہ غیر متمدّن دنیا، اپنی تمام کم زور خیالیوں کے ساتھ حضوراکرم ﷺ کے عقب میں گُم ہوتی نظر آتی اور نئی دنیا اور نیا نظام آپ ﷺ کے قدموں سے پھوٹتا ہُوا دکھائی دیتا ہے۔ آپﷺ نے پرانی دنیا کو اپنی تئیس سالہ جہادِ زندگانی میں ہمیشہ کے لیے ختم کردیا اور اس علم و عقل کی روشنی میں دمادم مہذّب اور متمدّن ہونے والی دنیا کا افتتاح آپﷺ ہی نے فرمایا۔
اسے ایک ایسا نظام عطا کیا، جو ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا، ہر زمانے کی انسانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔ درحقیقت، حضوراکرم ﷺ پوری انسانیت کے تاقیامت قائد ہیں کہ آپ ﷺ کی قیادت کی پوری تاریخِ انسانی میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی حضوراکرم ﷺ کی معجزانہ قیادت ہی کا حیرت انگیز کرشمہ ہے کہ آپ ﷺ کی قیادت و حکم رانی اور ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے قیام کی صُورت میں دنیا میں ایک ایسا عظیم الشّان انقلاب برپا ہوا، جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ تصوّراتِ انقلاب بھی آپﷺ نے دیئے۔
طریقِ کار بھی آپﷺ نے پیش فرمایا۔ اس کے لیے بہترین ساتھی بھی آپؐ نے تیار کیے اور اُن کی قیادت کے ذریعے وہ انقلاب بھی برپا کیا، جو واحد انقلاب ہے، جس نے انسان کو بدلا اور اسے اسلامی ریاست میں قومی قیادت/ لیڈر شپ کا اہل بنا کر، زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت اور نیابت کا واقعی حق دار بنادیا۔ اور یہی اسلامی انقلاب ہے، جو انسانیت کے لیے سراپا رحمت و برکت و سعادت ہے۔
آج ہمیں مخلص قومی قیادت اور مثالی لیڈر شپ کے لیے سرورِ کونین، فخرِ موجودات، سرورِ کائنات، پیغمبرِ آخر و اعظم، سیّدِ عرب و عجم حضرت محمد ﷺ کی سیرتِ پاک، اسوۂ رسول ؐ اور تعلیماتِ نبویؐ ہی سے ہر ہر مرحلے پر راہ نمائی لینی چاہیے کہ جو تا ابد رُشد و ہدایت کا سرچشمہ، لائقِ تقلید نمونہ اور مینارۂ نورہے۔
یوں بھی آپ ﷺ کی پیروی ہی میں ہمارے تمام مسائل کا حل، ہر دَور کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے راہ نُما اصول اور بے مثال تعلیمات پوشیدہ ہیں، جو تاقیامت عالمِ انسانیت کو روشنی اور راہ نمائی فراہم کرتی رہیں گی۔ (ختم شُد)