• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اپنا محاسبہ ضرور کرتا ہے، میں بھی چونکہ انسان ہوں اور گاہے گاہے اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہوں اِس لیے اکثر سوچتا ہوں کہ میرے لیے کالم نگاری قابل فخر ہے، ڈرامہ نگاری یا پھر افسری، تو مجھے ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ملتاہے اوراس کی وجہ بھی بڑی سیدھی ہے کیونکہ میرے لیے سب سے زیادہ فخر کی بات یہ ہے کہ میں عطاء الحق قاسمی کا بیٹا ہوں۔

2006ء میں جب میں نے ’’جنگ“ میں کالم لکھنے شروع کیے تو ابتدا میں مجھے یہ کام بہت آسان لگا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتنی بڑی چٹان ہے جو روز سرکانا پڑتی ہے۔جب بھی کالم لکھنے کے حوالے سے میرے ذہن میں کوئی اچھوتا موضوع آتا اور میں اس کا ذکر والد صاحب سے کرتا تو وہ نہایت توجہ سے پوری بات سنتے اور پھر جواب میں فقط ایک چھوٹا سا جملہ ارشاد فرماتے کہ ”بیٹا! اِس موضوع پر تو میں پینتیس برس پہلے کالم لکھ چکا ہوں۔“ کافی غور کے بعد میں نے سوچا کہ کیوں نہ اُن موضوعات کی ایک فہرست بنا لی جائے جن پر ابھی تک قبلہ والد صاحب نے کالم نہیں لکھا۔ محنت شاقہ کے بعد میں نے ایسی ایک فہرست تیار کی جن پر والد صاحب نے طبع آزمائی نہیں کی تھی، اِن میں سے کچھ موضوعات یہ تھے:۔ خریف کی فصل پر کیڑے مار ادویات کے اثرات۔عالمی منڈی میں ایلومینئم کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ۔ فن ِ پہلوانی کے زوال کے اسباب (نوٹ۔ شک ہے کہ شائد یہ موضوع والد صاحب کے احاطہ تحریر میں آ چکا ہو)۔ ٹائیفائیڈ اور اس کی اقسام۔ میٹرک کے نتائج کا ایک تنقیدی جائزہ۔ قصہ حاتم طائی کی گھٹیا کاغذ پر چھپائی اور بچوں پر اسکے اثرات۔

اِن موضوعات پر لکھنے کیلئے میدان صاف تھا اور میں ببانگ دہل والد صاحب سے کہہ سکتا تھا کہ جن موضوعات پر میں نے کالم لکھے ہیں اُن پر آپ نے آج تک نہیں لکھا۔ تاہم ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ایسے ”حساس موضوعات“ پر لکھنے سے مجھے بھی پرہیز ہی کرنا چاہیے۔

خواتین و حضرات! جب تک آپ کسی برے اداکار کی اداکاری نہیں دیکھتے تو آپ کو اچھے اداکار کی صلاحیت کا اندازہ نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جب تک آپ چند بے ہودہ کالم نہ پڑھ لیں تب تک آپ کو اچھے کالم نگار کی قدر نہیں ہوتی۔ آج کل الحمد للہ مارکیٹ میں ایک سے بڑھ کر ایک برا لکھنے والا موجود ہے اس لئے لوگوں کو اچھے کالم نگاروں کی قدرو منزلت کا احساس ہو گیا ہے، ویسے یہ بات یونہی برسبیل تذکرہ نکل آئی، میرا اشارہ اپنی طرف نہیں تھا۔

میں نے اپنی کم علمی کے باوجود زندگی میں بہت سے معروف ادیبوں شاعروں کو پڑھا ہے، لیکن والد صاحب وہ واحد ہستی ہیں جن کا لکھا ہوا نہ صرف میں نے پڑھا بلکہ اس کا اطلاق بھی ہوتے ہوئے دیکھا۔ میں نے والد صاحب کی تحریریں بطور فرزند نہیں بلکہ بطور ایک عام قاری کے پڑھی ہیں اسی لیے آج ایک عام قاری کے طور پرہی ان کی کتاب کے حوالے سے بات کروں گا۔ ”وصیت نامے“ اور ”ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ“ میں سے مجھے ذاتی طور پر ”وصیت نامے“ زیادہ پسند ہے۔ ”ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ“ کے بارے میں میں کہوں گا کہ یہ ایک اچھوتا موضوع تھا جس پر انہوں نے قلم اٹھایا اور پھر قہقہوں کے انبار لگاتے ہوئے پاکستانی معاشرے کی ایسی تصویر کشی کی بقول شفیق الرحمن قاری زار و قطار ہنسنے لگتا ہے۔ اس اعلیٰ پائے کا مزاح لکھتے ہوئے والد صاحب مجھ جیسے قلم کاروں کیلئے بے حد مشکل پیدا کر دیتے ہیں جن کیلئے طنز و مزاح کے اس معیار کو چھونا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔ میری ان سے گزارش ہے کہ پلیز اتنا اچھا نہ لکھا کریں، آخر دوسروں کو بھی اپنی روزی روٹی کمانے کا کوئی حق ہے۔

جہاں تک ”وصیت نامے“ کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک منفرد موضوع کی حامل کتاب ہے، جو نہ انشائیے کی ذیل میں آتی ہے، نہ کالم کی اور نہ مضمون کی، میرا تو خیال ہے کہ اِس فارمیٹ کا نام ہی ”وصیت نامے“ ہونا چاہیے۔ ویسے میری عمر میں تو وصیت نامے سے زیادہ نکاح نامے کے مندرجات یادرہتے ہیں لیکن اس کتاب کو پڑھنے کا مجھے ایک بہت بڑا فائدہ ہوا ہے کہ مجھے وصیت لکھنی آ گئی ہے، وصیت ہمارے معاشرے میں کس قدر اہمیت اختیار کر گئی ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک اچھی لکھی ہوئی وصیت آپ کو صدر بھی بنا سکتی ہے۔

قاسمی صاحب کے ان مزاحیہ مضامین کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان مضامین کا کوئی حصہ ایسا نہیں جسے آپ سرسری انداز میں چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں، زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک سطر دوسری سطر سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے فقروں میں صرف مزاح ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں کی بھی بھرپور عکاسی ہے۔ مثلاً پیر صاحب ہتھوڑا شریف کے وصیت نامے میں لکھتے ہیں۔ ”بیٹے! تمہیں پتہ ہے میرے جوڑوں میں درد رہتا ہے جس کیلئے حکیم نور دین نے موتی اور جواہرات کوٹ کر میرے لئے دوا تیار کی ہے، مجھے حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ نسخہ مہا راجہ پٹیالہ بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ تمہارے خادم خاص اللہ بخش کمہار نے مجھے بتایا مجھ سے چوری چھپے تم بھی یہ دوا استعمال کر رہے ہو، بیٹے اس کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کی مقدار دال کے دانے سے بھی کم ہونی چاہئے اور ایک پاؤ مکھن میں لپیٹ کر کھانی چاہئے ورنہ تمہیں دسمبر کا مہینہ جولائی کے برابر محسوس ہو گا۔ مگر بیٹے تمہیں ابھی سے اس کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے؟‘‘

ایک اور بات جو میں آپ سب سے یہاں شیئر کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ والد صاحب جس آسانی کے ساتھ کالم لکھتے ہیں اس کا شاید اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، وہ اپنی ”اسٹڈی“ میں ایک پین اور کاغذ کے ایک سادہ دستے کے ساتھ جاتے ہیں اور جب بمشکل ایک گھنٹے کے بعد وہاں سے برآمد ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک ماسٹر پیس تیار ہوتا ہے۔اتنی آسانی کے ساتھ تو صرف کوئی نقاد تنقیدی مضمون ہی لکھ سکتا ہے۔

آخر میں اپنی بات میں وہیں ختم کروں گا جہاں سے شروع کی تھی کہ ”میرا نام یاسر پیرزادہ ہے اور میں عطاء الحق قاسمی صاحب کا بیٹا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔‘‘ کالم کی دُم: یہ مضمون آج سے تقریباً سولہ برس پہلے میں نے قاسمی صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی میں پڑھا تھا اور یہ جنگ کے انہی صفحات پر شائع بھی ہوا تھا۔ گزشتہ روز، یعنی یکم فروری کو، قاسمی صاحب کی بیاسیویں (82ویں) سالگرہ تھی اِس لیے میں نے سوچا کہ آج اسی مناسبت سے دوبارہ اسے قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

تازہ ترین