• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں پنجاب ہیلتھ فائونڈیشن کے دفتر گیا تو دیکھا کہ ملتان روڈ پرجہاں پھل بیچنے والوں نے سارا راستہ بلاک کر رکھا ہوتا تھا وہاں سڑک کے کنارے ایک قطار میں بڑی خوبصورت سی ایک ہی رنگ کی ریڑھیاں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے یہ منظر اچھا لگا۔ وہاں سے سندس فائونڈیشن گیا تو شادمان چوک پر ویسی ہی ریڑھیوں کی قطار موجود تھی۔ دل خوش ہوا، دن بھر کئی جگہوں پر جانا پڑا۔ شام واپس آ رہا تھا۔ ایک اشارہ پر رکا تو خیال آیا کوئی بھکاری نظر نہیں آ رہا۔ یہاں تو کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا تھا۔ رات کو ایک دوست سے پوچھا کہ بھکاریوں کے غول کہاں چلے گئے ہیں۔ یہ اشارے تو بھکاری مافیا باقاعدہ نیلام کیا کرتا ہے۔ اس نے ڈی آئی جی ٹریفک اطہر وحید کا نام لیا۔ میں نے کہا :اچھا کام ہے مگر یہ جو لاہور میں اکثر جگہوں پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ انہیں اس کا کوئی حل نکالنا چاہئے۔ قانون کے نفاذ میں سختی لانی چاہئے تو دوست نے کہا :اظہر وحید نے کچھ تجاویز حکومت کو بھیجی ہیں۔ حکومت نے انہیں مان لیا تو ٹریفک کا مسئلہ دنوں میں حل ہو جائے گا۔ اس نے مجھے لاہور ٹریفک مینجمنٹ پلان کی ایک کاپی بھیجی۔ اس میں سے کچھ تجاویز درج کر رہا ہوں۔ لاہور میں تین ماہ کیلئے ٹریفک ایمر یجنسی نافذ کی جائے۔ سڑکوں پر تمام تجاوزات، غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈ ختم کر دئیے جائیں۔ اوور ڈائمنشنل گاڑیاں / کنسائنمنٹ (کوئی بھی گاڑی) چاہے کسی کی بھی ہو۔ انہیں پکڑا جائے۔ دن کو شہر میں ہیوی ٹریفک پر پابندی ہو۔ ون ویلنگ، کم عمر ڈرائیونگ اور بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑ یاں سڑک پر نہ دکھائی دیں۔ اے ای کمپوٹرائز ای چالان کی اجازت دی جائے۔ چھوٹے بڑے تمام سرکاری ملازمین کے غیر ادا شدہ چالان اے جی آفس ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا کرے۔ چالان کلیئر ہونے تک شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا اجرا یا تجدید نہ ہو۔ غیر رجسٹرڈ گاڑیاں ضبط کر لی جائیں۔ دس سے زیادہ زیر التوا ای چالان والی گاڑیاں بھی ضبط کر لی جائیں۔ عام کار یا موٹر سائیکل پر جرمانہ وہی رہے مگر ویگنوں اور بسوں پر تین گنا کر دیا جائے۔ لگژری کاروں اور لینڈ کروزر پر پانچ گنا کر دیا جائے۔ قانون میں ترمیم کر کے موٹر سائیکل کی اسپیڈ کی حد پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ کر دی جائے۔ لوڈر رکشے بنانے پر پابندی عائد کی جائے اور بنانے والے تمام یونٹ سیل کر دئیے جائیں۔ موٹر سائیکل کے صنعتی یونٹس کیلئے پیداوار کی حد مقرر کی جائے۔ اسکولوں کی رجسٹریشن میں بسوں کی موجودگی لازمی قرار دی جائے۔ حکومت پلازوں اور مارکیٹوں کی پارکنگ کے لئے کم از کم چار نئی جگہیں فراہم کرے۔ زیادہ رش والے علاقوں میں روٹری پارکنگ سسٹم لگایا جائے۔ اس کے علاوہ اس میں سینکڑوں اور قابل عمل تجاویز موجود ہیں۔ یہ تجاویز دیکھ کر جی کچھ خوش ہوا تھا کہ ایک خبر نے سارا موڈ ہی خراب کر دیا کہ لاہور میں دو ہزار چوبیس میں چھیالیس ہزار 402 سنگین جرائم کے واقعات کی رپورٹس درج ہوئیں۔ کسی نے پوچھا کہ لاہور میں ڈی آئی جی آپریشنز کون ہے۔ پتہ چلا کہ کامران فیصل ہیں۔ ان کے متعلق ہمیشہ اچھی باتیں سنی تھیں۔ سوچا ان سے ملاقات کی جائے کہ لاہور کیسے امن وامان کا گہوارہ بنے گا۔ ان سے ملا تو پہلا سوال یہی کیا کہ یہ کیا ہے تو کہنے لگے ۔ ’’بالکل درست‘‘۔ میں حیران رہ گیا۔ میری حیرت کو دیکھ کر بولے۔ ’’دو ہزار تیئس میں سنگین جرائم اکیاسی ہزار تین سو چھتیس تھے۔ میں اتنا ہی کر سکتا تھا‘‘۔ میں نے کہا، ’’یعنی ایک سال میں تقریباً پینتالیس فیصد کم ہو ئے ہیں‘‘۔ میرے ذہن میں برے الفاظ آئے، اس کیلئے جس نے سوشل میڈیا پر یہ خبر دے کر اپنے ویوز بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ ویسے بھی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی کےشہر میں چھیالیس ہزار واقعات کچھ زیادہ نہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں جرائم ہوں گے۔ انسان بے شک خسارے میں ہے۔ القرآن۔ لیکن جرائم کی تعداد کا کم سے کم ہونا کسی بھی معاشرت کے اعلیٰ ہونے کا اظہار ہے۔ میں نے ایک اور پولیس کے افسر سے سوال کیا کہ کرائم ایک سال میں اتنا زیادہ کیسے کم کیا گیا تو اس نے کہا ’’فیصل کامران نے 238افسران واہلکاروں کو مختلف سزائیں سنائی ہیں۔ کرپشن واختیارات سے تجاوز اور ناقص کارکردگی پر25 ایگزیکٹو جبکہ 22منسٹریل اسٹاف کے افسران واہلکار معطل کئے ہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس اگر پوری طرح فعال ادا کرے تو جرائم میں بہت کمی ہو سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی انسانی معاشرے میں جرائم مکمل طور پرختم نہیں ہو سکتے۔ انسانی خمیر میں ایک کجی موجود ہے۔ میں نے فیصل کامران سے پوچھا کہ جرائم مزید کم ہونے کی توقع ہے تو کہنے لگے :جو میرے اہداف ہیں۔ ان سے یقیناً یہ اور بھی کم ہونگے۔ خاص طور پر قتل کی وارداتوں میں کمی کے لیے اسپیشل ہومی سائیڈ پری ونشن یونٹ تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ یونٹ، ہائی رسک افراد کی بروقت نشاندہی کرے گا۔ بروقت رسپانس ممکن بنائے گا۔ قتل کی وجوہات پر توجہ دے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کی پہلی ترجیح انسانی جانوں کو بچانا ہے۔ اسی طرح پولیس کے رویے کی تبدیلی پر بھی ہم بہت کام کر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان چاہتے ہیں کہ پولیس کے رویے میں تبدیلی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے تاکہ لوگ پولیس سے تحفظ محسوس کریں ،انہیں اپنا محافظ سمجھیں، پولیس کے ساتھ محبت کریں۔

تازہ ترین