(گزشتہ سے پیوستہ)
میں نے آپ کو اپنے بارے میں یہ تو بتایا نہیں کہ میں ایک عجیب وغریب مخلوق ہوں مثلاً میں نے زندگی میں کوئی خواہش نہیں کی، میں نے آج تک جتنی ذمہ داریوں پر کام کیا ہے وہ میرے خواب وخیال میں بھی نہیں تھیں۔میرے دوست اور مختلف شعبوں میں تابناک حیثیت کے حامل مسعود علی خاں نے شاید میری گپ شپ کے انداز کو دیکھ کر مجھے مشورہ دیا کہ تمہیں کسی اخبار میں کام کرنا چاہئے اس حوالے سے صرف خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے بہنوئی حبیب اللہ ککرو (یہ کشمیریوں کی ایک ذات ہے) سے جو مجید نظامی صاحب کے دوست تھے نوائے وقت میں سفارش کیلئے کہااور میں کالم نگار بن گیا۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں لیکچرر بھی بنوں گا مگر ہوا یہ کہ میں ایم اے او کالج کے پرنسپل اور نامور ماہر تعلیم کرامت حسین جعفری کا انٹرویو لینےگیا تو انہوں نے میرے نام کی مماثلت کےسبب پوچھا مولانا بہاو الحق قاسمی تمہارے کیا لگتے ہیں میں نے کہا میرے والد ہیں پھر پوچھا کیا کر رہے ہو میں نے عرض کی وہی جس حوالے سے آپ کے پاس آیا ہوں یعنی اخبار نویسی، بولے چھوڑو ادھر بطور لیکچرر آجائو، ان دنوں میرے دوست ایک ایک کرکے امریکہ جا رہے تھے اور مجھے بھی چلنے کیلئے کہتے تھے مگر چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں؟ سو میں نے جعفری صاحب کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ شاید میں امریکہ جا رہا ہوں یہ سن کر انہوں نے کہا کوئی بات نہیں امریکہ سے جب بھی واپس آئو تمہاری لیکچرر شپ موجود رہے گی۔ اب یہ بتائیں کہ جس نے کبھی امریکہ جانے کا سوچا بھی نہیں تھا دوستوں کے دبائو میں آکر اپنی موٹر سائیکل تین ہزار روپے میں فروخت کی تین ہزار ابا جی اور بھائی جان سے لئے یہ ان کی میرے لئے بڑی قربانی تھی اللہ جانے انہوں نے اتنی بڑی رقم کے حصول کیلئے کیا کیا جتن کئے ہوں گے ۔بہرحال میں پانچ ہزار روپے میں امریکہ پہنچ گیا باقی ہزار روپے یعنی سو ڈالر بچائے یہ 1970ء کی بات ہے اور امریکہ کا پاسپورٹ اتنی آسانی سے مل جاتا تھا کہ اب سوچا بھی نہیں جاسکتا مگر دوستوں کے سمجھانے کے باوجود میں واپس پاکستان آ گیا اور جعفری صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا ،انہوں نے میری اپائمنٹ کے آرڈر جاری کئے اور اگلے روز میں لیکچرر بن گیا اور دوسرے ہی دن میرے کولیگز نے جو سب کے سب لیکچرر تھے مجھے پروفیسر صاحب کہنا شروع کر دیا اور مجھے بھی مجبوراً انہیں پروفیسر صاحب کہنا پڑتا اب میری یہ الجھن دورکریںکہ میں نے کبھی اخبار نویسی، امریکہ جانے اور لیکچرر بننے کا سوچا تک نہیں تھا پھر یہ سب کچھ کیسے ہوا کیا یہ تقدیر کا چکر تھا ؟
1996ء کے عام انتخابات میں میں نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں پے درپے کالم لکھے اس وقت پی ایم ایل این اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی چنانچہ بھاری اکثریت سے جیت گئی جس روزرزلٹ کا اعلان ہوا اس روز لاہور کی ساری سڑکوں کا رخ ماڈل ٹائون کی طرف تھا کہ لوگ قطار اندر قطار میاں نواز شریف کو مبارک باد کہنے ماڈل ٹائون کا رخ کر رہے تھے میں بے حد خوش تھا مگر مبارک باد کہنے نہیں گیا کہ مجھے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔تین چار روز کے بعد فون کی گھنٹی بجی میں نے ریسور اٹھایا تو دوسری طرف میاں نواز شریف تھے بہت محبت بھرے انداز میں کہنے لگے ’’قاسمی صاحب آپ نے تو مجھے مبارک نہیں دی سوچا میں ہی یہ کام کیوں نہ انجام دوں ‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا میاں صاحب مجھ سے زیادہ خوشی اور کس کو ہو سکتی ہے مگر اسے سینے میں دبائے رکھا۔ اب ذرا میاں صاحب کی انکساری ملاحظہ فرمائیں بولے ’’آپ کل مجھے پندرہ منٹ عطا کر سکتے ہیں‘‘ میں نے عرض کی میاں صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ وزیراعظم پاکستان ہیں آپ بتائیں کتنے بجے حاضر ہو جائوں میں بات مختصر کرتے ہوئے بتاتا ہوں کہ گیارہ بجے کا ٹائم طے ہوا اس وقت ہال مبارک باد کہنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا میاں صاحب ایک چھوٹی میز کے گرد بچھی دو کرسیوں کی طرف لے گئے انہوں نے کہا آپ بتائیں آپ کس شعبے میں پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں ، میں نے یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔چنانچہ میری اور ان کی تکرار میں پندرہ منٹ گزر گئے بالآخر انہوں نے مجھے ناروے میں پاکستان کا سفیرمقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا میں اگر اس کے بعد کی اپنے انکار کی تفصیل بیان کرنے لگوں تو وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اس حوالے سے میرے تین گواہ ہیں۔ مجید نظامی جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور مجیب الرحمان شامی اور تسنیم نورانی میرے گواہ ہیں ان سے پوچھ لیں کہ میں انکار کے رستوں پر کتنی دیر تک چلتا رہا۔ ایسی ہی صورتحال میں ان دوسرے شعبوں کی سربراہی کا اعزازبھی حاصل ہوا جو میں نے نہ کبھی بننے کا سوچا تھا اور یوں ان کے لئے کبھی کوشش بھی نہیں کی تھی، پی ٹی وی کی چیئرمین شپ کے حوالے سے اس وقت کے وفاقی وزیر اور سیاست دانوں میں سے میری محبوب ترین شخصیت پرویز رشید کا ایک خط میرے سامنے دھرا ہے جس میں انہوں نے مجھ سے چیئرمین پی ٹی وی بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے مگر میں اس خط کی صرف تین چار لائنیں قارئین کی نذر کرتا ہوں ’’مجھے آپ کی مصروفیات اور سیرو سیاحت کے شوق کا بھی احساس ہے جسے ترک کرکے ایک مشکل کام کرنے کی درخواست کر رہا ہوں کہ آپ خود ہی تو کہا کرتے ہیں کہ ان اداروں کو فالج سے نکالنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہےاس یقین کےساتھ کہ آپ اپنے ذاتی وقت کو ایک قومی مقصد کیلئے چیئرمین پی ٹی وی کا عہدہ قبول کرنے میں پس وپیش نہیں کریں گے ‘‘۔
یہ توحلال کے ذرائع تھے جن کی خواہش تک مجھے کبھی نہیں رہی تھی بلکہ سوچا تک بھی نہ تھا الحمدللہ ان عہدوں پر کام کرنے کے باوجود میں نے دنیا بھر میں ڈرامہ نگاری (خواجہ اینڈ سن وغیرہ) مزاح نگاری،سفرنامہ نگاری اور شاعری میں بھی نام کمایا میں اگلی روداد میں اس حرام مال کا ذکر کروں گا جو اگر قبول کر لیتا تو آج ارب پتی ہوتا ۔(جاری ہے)