• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ: 200 ملین پاؤنڈ منی لانڈرنگ کیس، 4 افراد کو قید کی سزائیں

برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ میں ملوث مجرمان کو قید کی سزا سنادی گئی ہے۔ 

برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق 200 ملین پاؤنڈ کی منی لانڈرنگ کیس میں 4 افراد کو جیل کی سزا سنائی گئی ہے۔ 

جرم ثابت ہونے پر گریگوری فرینکل کو 11 سال 8 ماہ، ارجن ببر کو 11 سال، ڈینئل راؤسن کو 10 سال 10 ماہ اور ہارون رشید کو 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ 

رپورٹس میں بتایا گیا کہ مجرمان پر الزام تھا کہ انہوں نے رقم کے ذرائع چھپائے، رقم سے سونا خریدا اور خلیجی ممالک بھیجا۔

جج نے اس منصوبے کے حجم کو "حیران کن" قرار دیا، صرف راوسن لیڈز کراؤن کورٹ میں اپنی سزا سننے اور شروع کرنے کے لیے موجود تھا، جبکہ باقی تینوں افراد کے ملک سے فرار ہونے کے خدشے کے پیش نظر ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے۔

عدالت کو پہلے بتایا گیا تھا کہ 2014 سے 2016 کے درمیان، پورے برطانیہ سے رقم بریڈفورڈ میں قائم جیولرز فاؤلر اولڈ فیلڈ، لندن میں ایک کاروباری مقام، اور ہیٹن گارڈن میں قائم پیور نائنز لمیٹڈ نامی کمپنی تک پہنچائی جاتی تھی۔

ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے رقم کے ماخذ کو چھپانے کے لیے اسے کمپنی کے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے لانڈر کیا اور اس رقم سے سونا خریدا، جسے دبئی بھیج دیا جاتا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ فرینکل اور راوسن فاؤلر اولڈ فیلڈ کے ڈائریکٹرز تھے، جو 2016 میں پولیس کی مداخلت تک منی لانڈرنگ آپریشن کے لیے "اصل کاروبار کا پردہ" بن چکا تھا۔

عدالتی کارروائی کے دوران انکشاف ہوا کہ "گندا پیسہ" کورئیرز کے ذریعے شاپنگ بیگز اور ہینڈ بیگز میں بھر کر لایا جاتا تھا، جس میں ہر بار لاکھوں پاؤنڈ ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ اسے فاسٹ فوڈ کے ڈبوں اور بچوں کے کھلونوں میں بھی چھپا کر لایا جاتا تھا۔

یہ رقم کاروباری مقام پر موجود خصوصی مشینوں کے ذریعے گنی جاتی، پھر اسے پیک کر کے مزید کارروائی کے لیے تیار کیا جاتا۔ سماجی شخصیت جیمز اسٹنٹ، جو فارمولا 1 کے ارب پتی برنی ایکلسٹون کے سابق داماد ہیں، پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے مے فیئر آفس کو منی لانڈرنگ کے لیے "قابلِ اعتماد مرکز" کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی۔ تاہم، انہوں نے اس جرم سے انکار کیا اور لیڈز کراؤن کورٹ کی جیوری نے انہیں منگل کے روز بےگناہ قرار دیا۔

سزا سنائے جانے کے بعد، کراؤن پراسیکیوشن سروس کی ہنہ وان ڈیڈلزین نے کہا کہ"یہ کیس انگلینڈ اور ویلز میں عدالتوں تک پہنچنے والے منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے مقدمات میں سے ایک ہے۔"یہ چار افراد اس سازش کے مرکز میں تھے، جنہوں نے مجرمانہ رقم کو قانونی حیثیت دینے کے لیے اسے بینکنگ نظام میں داخل کیا۔ آج، ان کے خلاف انصاف ہوا۔"

دوسری جانب، ویسٹ یارکشائر پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل پیٹ ٹوئگس نے کہا کہ "یہ ایک انتہائی منظم آپریشن تھا، جو مجرمانہ سرگرمیوں سے منسلک بھاری رقم کو لانڈر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ہماری تحقیقات کے دوران کسی نے بھی وہ رقم کلیم کرنے کے لیے سامنے آنے کی ہمت نہیں کی جو ہم نے ضبط کی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ پیچیدہ اور تفصیلی تحقیقات، جو ویسٹ یارکشائر پولیس اکنامک کرائم یونٹ نے کی، اس نتیجے تک پہنچنے میں آٹھ سال لگے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے افسران اور عملے کی محنت اور عزم، شراکت دار ایجنسیوں کے ساتھ مل کر، اس نتیجے تک پہنچا۔"


بین الاقوامی خبریں سے مزید