چولستان نہر منصوبہ پاکستان کے دیرینہ آبی تنازعات میں ایک نیا رخ لے چکا ہے، جس نے پنجاب اور سندھ کو ایک بار پھر پانی کے سب سے قیمتی وسائل پر آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ اس منصوبے کو چولستان کے صحرائی علاقے کو سیراب کرنے کیلئے ایک ترقیاتی قدم قرار دیا جا رہا ہے، مگر حقیقت میں یہ سندھ کے پانی کے وسائل کیلئے ایک وجودی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلے ہی سندھ پانی کی شدید قلت کا شکار ہے، اور اگر مزید پانی اوپر کی طرف موڑ دیا گیا تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔سندھ کی معیشت زراعت سے جڑی ہوئی ہے، جو پاکستان کے جی ڈی پی میں تقریباً 23 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور ملکی افرادی قوت کا 37فیصد روزگار فراہم کرتی ہے۔ سندھ ملکی چاول، گندم، گنا، اور کپاس کی ایک بڑی مقدار پیدا کرتا ہے۔ سندھ کی چاول کی پیداوار پاکستان کی کل پیداوار کا 36 فیصد ہے، جب کہ گنے اور کپاس میں اس کا حصہ بالترتیب 29 اور 25فیصد ہے۔
مال مویشی پالنے کا شعبہ، جو پانی کی دستیابی پر منحصر ہے، سندھ کے 60فیصد دیہی آبادی کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوتا ہے، تو سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔سندھ پہلے ہی ایک شدید آبی بحران سے گزر رہا ہے۔ ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور دادو کے کاشتکار پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں جو ان کے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ 1991کے پانی کے معاہدے کے تحت تمام صوبوں کو یکساں حصہ ملنا چاہیے تھا، مگر حقیقت میں سندھ کے ساتھ مسلسل ناانصافی ہو رہی ہے۔ پنجاب اپنے آبپاشی کے نظام کو مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں سندھ کا پانی مزید کم ہو رہا ہے۔ چولستان نہر منصوبہ اگر مکمل ہوتا ہے، تو یہ سندھ کے لیے مزید تباہی کا سبب بنے گا۔یہ منصوبہ سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم پر پہلے سے موجود بداعتمادی کو مزید گہرا کر رہا ہے۔
چشمہ-جہلم لنک نہر اس کی ایک بڑی مثال ہے، جس کا مقصد سیلابی پانی کو ریگولیٹ کرنا تھا، مگر یہ بار بار پنجاب کے زرعی علاقوں کو پانی دینے کے لیے استعمال کی گئی، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب سندھ خشک سالی کا سامنا کر رہا تھا۔ اس صورتحال نے سندھ کے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اب چولستان نہر کے منصوبے کے ساتھ، سندھ کو خدشہ ہے کہ ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور اس کے پانی کے حقوق پامال کیے جائیں گے۔اس کے علاوہ، یہ منصوبہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلے ہی میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے سمندری پانی کا زمین میں داخل ہونا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مقامی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہے۔ مینگروز کے جنگلات جو سمندری کٹاؤ کو روکنے میں مدد دیتے ہیں، تیزی سے ختم ہو رہے ہیںاور مچھلی کی پیداوار جو ماہی گیروں کے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے، بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اگر چولستان نہر کی تعمیر سے دریائے سندھ میں پانی کی روانی مزید کم ہوئی تو یہ ماحولیاتی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی اس معاملے میں بے حسی نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل 154 کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس طلب نہیں کیا، جو آبی تنازعات جیسے اہم معاملات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس فیصلے نے سندھ میں یہ تاثر مزید پختہ کر دیا ہے کہ قومی وسائل کی تقسیم ایک صوبے کی خواہشات کے مطابق کی جا رہی ہے، جبکہ دیگر صوبوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر سندھ اور بلوچستان کے خدشات کو نظر انداز کیا گیا تو یہ منصوبہ کالا باغ ڈیم کی طرح ایک بڑا تنازع بن سکتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس فیصلے میں شامل کیا جائے تاکہ کسی بھی سیاسی عدم استحکام اور معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔اس سب کے ساتھ، پاکستان پہلے ہی جولائی سے دسمبر 2024تک کم بارشوں کے باعث خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بارشوں کی مقدار معمول سے کم رہی، جس سے پہلے سے موجود پانی کی قلت مزید بڑھ گئی ہے اور صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔یہ تنازع صرف ایک نہر کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بین الصوبائی ناانصافی کا ایک وسیع مسئلہ ہے۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور چولستان نہر منصوبے کو فوری طور پر روکا جائے، جب تک کہ تمام فریقین کے ساتھ مشاورت کے بعد کوئی متفقہ فیصلہ نہ ہو۔ 1991 کے معاہدے کو سختی سے نافذ کیا جائے تاکہ کوئی بھی صوبہ اپنے حصے سے زیادہ پانی حاصل نہ کر سکے۔ وزیر اعظم کو فوری طور پر سی سی آئی کا اجلاس بلانا چاہیے تاکہ سندھ کے خدشات کو دور اور آئین کی پاسداری کی جا سکے۔ اس کے علاوہ حکومت کو جدید آبپاشی کے طریقے اپنانے چاہئیں تاکہ پانی کا زیادہ سے زیادہ مؤثر استعمال ممکن ہو اور نیچے کے علاقوں کو ان کا حق مل سکے۔سندھ کے کسان، ماہی گیر، اور دیہی آبادی پہلے ہی بحران کی زد میں ہیں۔ اگر یہ منصوبہ بغیر کسی روک ٹوک کے آگے بڑھا، تو یہ نہ صرف سندھ کی زراعت اور ماحولیات کیلئے نقصان دہ ہوگا بلکہ ملک میں مزید عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔