19ویں صدی کے حالات سے قطع نظر،بعد ازاںامریکا اور کینیڈا کےتشکیل پانے والے خوشگوار تعلقات دنیا کے سامنے مثالی ہمسایوں کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔عالمی تنازعات میں دونوں نے ہمیشہ قریبی اتحادی ہونے کا ثبوت دیاہے۔یہ قربت شہریوں کی آمدورفت اور متعدد تجارتی معاہدوںکی شکل میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔جہاں بھی تنازعات نے جنم لیا ،باہمی تعاون کی شکل میں ایک دوسرے کا احترام دیکھا گیا۔دونوں ملکوں کے درمیان دنیا کی پرامن طویل ترین سرحد پائی جاتی ہے اورٹرینوں،بسوں،ٹرکوں اور نجی گاڑیوں کی دن رات آمدورفت میں کوئی چیز مانع نہیں۔تاہم اس خوشگوار ماحول کے تناظر میں حلف اٹھانے سے قبل اورپھر فوری بعدصدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکے بعد دیگرے بیانات اور فیصلے دنیا کیلئے ورطہ حیرت بنے ہوئے ہیں۔ان میں کینیڈا کی امریکہ میں ضم ہونے کی تجویز اور تین صدارتی حکم ناموں میں کینیڈااور میکسیکو کی درآمدات پر 25جبکہ چین کی اشیا پر 10فیصد ٹیرف کا فی الفور اطلاق شامل ہے۔امریکی صدر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کا ملک کینیڈا کو سبسڈی کی مد میں سیکڑوں ارب ڈالر ادا کرتا ہے ،جس کے بغیر کینیڈا ایک مستحکم ملک کے طور پر برقرار نہیں رہ سکتا۔بعدازاںصدر ٹرمپ نے اپنا بیان دہراتے ہوئےپیشکش کی کہ اگر کینیڈا ،امریکا کی 51ویں ریاست بن جائے تو اس صورت میں کینیڈا کے پاس بہتر فوجی تحفظ ہوگااور اس پرٹیرف بھی لاگو نہیں ہوگا۔کینیڈا،چین اور میکسیکو نے امریکی اقدام کے ردعمل میں اس کی درآمدات پر 25فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔کینیڈا اور میکسیکو کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹیکسوں کے نفاذ کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر کام کررہے ہیں۔یورپی کمیشن کے ترجمان نے امریکا کا متنبہ کیا ہے کہ اگر یورپی یونین پر کوئی ٹیکس لگایا گیا تو وہ بھی بھرپور جوابی اقدامات کرے گی۔کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے عوام سے امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہےاور جوابی اقدام کے طور پر شراب،لکڑی اور برقی آلات سمیت 155ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات پرآج(منگل)سے 25فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔جسٹن ٹروڈو نے امریکی شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقدام سے ان کی اشیائے ضروریہ اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اورممکنہ طور پر آٹو اسمبلنگ پلانٹ بند ہوجائیں گے۔انھوں نے اپنے شہریوں پر زور دیا کہ وہ امریکا کا سفر ترک اور اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں۔چین کا کہنا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے اقدام کو عالمی تجارتی تنظیم(ڈبلیو ٹی او)میں چیلنج کرنے کے ساتھ دیگر جوابی اقدامات کرے گا۔امریکی ادارہ شماریات کے مطابق 2023میں تقریباً 100ارب ڈالر کے ساتھ کینیڈا سے تمام امریکی درآمدات کا تقریباً ایک چوتھائی خام تیل کی درآمد پر مشتمل تھا۔ادھر متذکرہ امریکی اقدام اور اس سے پیدا شدہ صورتحال میں عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔درپیش صورتحال عالمی تجارتی جنگ کا ڈھول پیٹ رہی ہے۔ٹیرف کے نفاذ یااس میںممکنہ اضافے کے تناظر میںدیگر ممالک کی طرف سےبھی جوابی کارروائی خارج از امکان قرار نہیں دی جاسکتی ،جس کا سب سے زیادہ اثر ترقی پذیر اور غریب ملکوں پر پڑ ے گا ،ان کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوں گی اور دنیا میں مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لےگی۔ صدر ٹرمپ کاکینیڈا سے متعلق بیان ان کے مزاج کے مطابق ازراہ تفنن بھی ہوسکتا ہےتاہم اگر اس میں سنجیدگی پائی جاتی ہے توبھی یہ گہری سوچ کا متقاضی ہے، اس معاملے کو نظرانداز نہیں ہونا چاہئے۔چین کا عالمی ادارہ تجارت سے رجوع کرنے کا فیصلہ مناسب ہے،ڈبلیو ٹی او کوبھی عالمی تجارتی جنگ کےخطرے سے نمٹنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔