• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمندر اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر شے قدرت کا وہ تحفہ ہے جس کا درست استعمال ملحقہ ملک کے لئے خوشحالی کے دروازے کھولتا ہے۔ مگر قیام پاکستان کی پون صدی گزرنے کے باوجود کراچی کی بندرگاہوں کی جو کیفیت نظر آتی ہے، اس سے یہ تاثر نمایاں ہے کہ ہم نے قدرت کے انمول تحفوں کی حفاظت، سجاوٹ اور دیدہ زیبی کی بجائے اسکے برعکس کردار ادا کیا ہے۔ بندرگاہی زمینوں کے حوالے سے پیر کودی نیوز / جنگ میں چھپنے والی یہ رپورٹ چشم کشا ہےکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی اربوں روپے مالیت کی تقریباً ایک تہائی اراضی یعنی 1448ایکڑ پر تجاوزات ہیں جبکہ 13ہزار 770رقبے کی حامل پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30ایکڑ زمین غیر قانونی قبضے میں ہے۔ غیر قانونی قبضہ شدہ زمین پر بااثر سیاستدانوں کی مبینہ اشیرباد سے تجاوزات قائم ہیں۔ جبکہ 350؍ایکڑ زمین تجاوزات کی صورت میں صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق ملک کے میری ٹائم سیکٹر کی اصلاح کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو جو معلومات فراہم کی گئیں انکے بموجب ساحلی پٹی سے جُڑی انتہائی مہنگی زمینیں تجاوزات اور تباہ حالی کی شکار ہیں جسکے باعث یہاں کوئی معاشی سرگرمی نہیں ہو رہی ۔ یہ تفصیلات اس بنا پر روشنی آگئیں کہ وزیراعظم کی طرف سے منظور شدہ ازسرنوبحالی (ری ویمپنگ) پلان کے لئے وفاقی ملکیتی زمین کاروباری مقاصد میں استعمال کیلئے واگزار کرنے کیلئے کہا گیا ۔ اس طرح ری ویمپنگ پلان پر عملدرآمد کی صورت میں مذکورہ زمینیں معاشی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی صورت تو پیدا ہوئی مگر یہ ضرورت بھی اجاگر ہوئی کہ سرکاری ملکیتی اراضی کا ریکارڈ باقاعدہ کمپیوٹرائز کیا جائے، زمینوں کی حفاظت کا موثر انتظام کیا جائے اور ممکنہ سرکاری کارروائی سے متاثر ہونے والے افراد کی مستقل بحالی و آباد کاری کی تدابیر بروئے کار لائی جائیں۔

تازہ ترین