• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نتیجہ خیز انقلابی حل، نالج بیسڈ سول ملٹری ریلشنز

(گزشتہ سے پیوستہ )

عجب ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہر شعبہ زندگی کی تاریخ خیرہ کن اور تباہ کن رہی۔ 78سالہ قومی زندگی کے سفر میں کوئی بالائی ریاستی ادارہ اور عوامی خدمت کا ایسا محکمہ نہیں جس نے بڑی کامیابیاں نہ سمیٹی ہوں،لیکن پھر یہ جمود کا شکار نہ ہو گیا ہو۔ تادم ہماری بنتی تاریخ کا ثابت شدہ ریکارڈ ہے کہ کسی خاص مرحلے پر اس (ریاستی ادارے یا عوامی خدمت کے محکمے) کی کامیاب رفتار کم تر ہو کر کیفیت پیچیدگی سے دو چار ہوتی حالت زار میں تبدیل ہو کر یہ زوال پذیر ہوگئی۔ یوں کئی اور ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی ارتقائی عمل میں رکاوٹوں کو ہٹانے میں ناکام ہو کر متذکرہ بیمار کیفیت سے بار بار دو چار ہوتا گیا لیکن پاکستان سے کہیں کم پوٹنشل کے کئی ایشیائی ترقی پذیر ممالک تو اپنے سست ارتقاء کی رفتار تیز کرنے اور اسے ترقیٔ جاریہ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جیسے جنوبی کوریا، ملائیشیا، سنگا پور، انڈونیشیا اور اب تو بلاشبہ قومی سطح (میکرو لیول) کی ترقی کے حوالے سے اہم ترین ترقی پذیر ملک بھارت ہے، جبکہ ابتدائی دو عشروں میں پاکستان میں مطلوب سیاسی استحکام کے مکمل فقدان کے باوجود ملکی معاشی ترقی اور عوامی معیار (مائیکرو ڈویلپمنٹ) کے تقابل میں بھارت کے مقابل کم تر ریاستی وسائل ہونے کے باوجود بڑھتےحجم اور تیز رفتار ومعیار اس پر غالب تھا، تاہم بھارت جلد ہی اپنی آئین سازی اور اسکی بلارکاوٹ عمل داری سے جمہوری و سیاسی استحکام سے اپنے پیچیدہ ترین بڑے سیاسی سماجی ڈھانچے کے باوجود اپنی مضبوط بنیاد بنانے اور اسی پر ملکی تعمیر کی عمارت کو سیدھا رکھنے میں کامیاب رہا اور پاکستان اسکے برعکس آئین سازی میں تاخیر اور بننے کے فوراً بعد ہی مارشل لاکے نفاذ سے ناکام۔ واضح رہے ’’آئین نو‘‘ کے جاری موضوع کے تجزیے کا خصوصی حوالہ تو ایک صحت مند اور مکمل نالج بیسڈ کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم کے ذریعے جاری گھمبیر آئینی و سیاسی اور عدالتی بحران میں بری طرح ڈسٹربڈ ہوئے سول، ملٹری ریلیشنز کا قومی و ادارہ جاتی اعتراف پیدا کرتے، اس ظہور پذیر بڑی قومی ضرورت کو پورا کرنے پر بذریعہ جدید و متعلقہ علم، راہ مستقیم دکھانا ہی ہے۔مان لیا جائے، اب سوشل میڈیا پوری دنیا میں قومی اور انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے ابلاغ عامہ کا ناگزیر لازمہ بن گیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کا عالم یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا بڑے اور طویل ہوتے سیاسی و آئینی بحران سے براہ راست متاثر ہوتا عوام میں اپنا اعتبار (source credibity) تقریباً کھو چکا ہے جبکہ دو رنگی ملک سوشل میڈیا بہت حد تک آزاد میڈیا اور اپوزیشن کا سنجیدہ کردار بھی ادا کر رہا ہے اور بہت غیر ذمے دار اور پھکڑ پن اور ابلاغی کھلواڑ میں بھی مبتلا ہے۔ جبکہ حکومت جو اپنے جاری متنازعہ دور میں بھی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ایک پیچ پر ہے، کی میڈیا پالیسی اور متعلقہ اقدامات ہر دو کو سوشل میڈیا اور اب مین اسٹریم میڈیا سے دور کرنے کا باعث بن رہےہیں۔ اس نازک وقت میں شدت سے بڑھتی مطلوب میڈیا ۔ حکومت، میڈیا۔ سیاست اور میڈیا۔ ملٹری ریلیشنز تعلقات، عالمی، ملکی اور علاقائی بنتی صورتحال میں اولین قومی ضرورت اب ظہور پذیر ہی نہیں، مکمل واضح ہوگئی ہے۔ یوں اس موجود پیچیدہ صورتحال میں مطلوب تین متذکرہ تین اسٹیک ہولڈرز کے میڈیا کیساتھ تعلقات کے تناظر میں ایک اور بڑی قومی ضرورت سول، ملٹری ریلیشنز کی بنتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وجہ کچھ بھی ہو، یہ ہی جاری تجزیے کا مزید محدود کیا گیا حوالہ و خصوصی موضوع ہے، مکمل واضح ہے تو مان بھی لیا جائے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ملکی سب سے مقبول ترین ہی نہیں، 8فروری کی پولنگ میں سب سے بڑی مین ڈیٹڈ جماعت تحریک انصاف اور اسکی قیادت عمران خان کے تعلقات بھی، میڈیا، گورنمنٹ ریلیشنز اور میڈیا، ملٹری ریلیشنز کی طرح پریشان کن حدتک ڈسٹربڈ ہیں۔ سب کیلئے یہ پیچیدہ صورتحال ہی خسارے کا سبب بن رہی ہے اور بنے گی۔ ٹھوس اور مکمل حقائق کو تسلیم کرنے سے اتنا کھلا انکار اور اسے ہی منوانے کیلئے اتنا رجعت پسندانہ رویہ پاکستان جیسی 25کروڑ کی ایٹمی طاقت کے تمام اجزائے ترکیبی، عوام و خواص سب ریاستی اداروں، وفاق اور صوبوں بااختیار نہتے و بے اختیار، سب ہی کے اتحاد و استحکام کا بڑا چیلنج ہے۔ انکے تعلق کا معمول پر آنا اور بلارکاوٹ بہتر سے بہتر ہوتے چلے جانا،سر پر آن کھڑے کتنے اور چیلنجز سے نمٹنے کا ناگزیر اور فوری تقاضا ہے۔ بلاشبہ اس میں میڈیا کی آزادی، اس کے اپنے جاری و ارتقاکی بحالی اور سب سے بڑھ کر اس پر عوام کے اعتبارکی بحالی ملک کے اندر سے اٹھا اور خالصتاً داخلی سطح پر ہی حل ہونیوالا قومی مسئلہ بن کر متنازعہ قانون سازی اور جاری سیاسی و حکومتی کھلواڑوں سے مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے سکہ بند، حقیقی اور پائیدار حل کی کنجی مطلوب درجے کے معمول سے بڑھ کر بھی بہتر سے بہتر بنتے شدت سے مطلوب سول،ملٹری تعلقات ہی میںہے۔ اس ابلاغی ماحول میں بااعتبار اور آئینی حدود میں رہتے آزاد اور ذمے دار میڈیا (بشمول سوشل) کے دو کردار بہت واضح ہیں۔ گورننس کی مانیٹرنگ اور صحتمند تنقید سے اسکی اصلاح اور مطلوب رائے عامہ کی تشکیل سے اسے پروپیپلز بنانا، دوسرے بیرونی مخالف و مقابل قوتوں کے منفی عزائم کو ناکام و نامراد کرنے کیلئے عوام و حکام کی یکجہتی و اتحاد کو ممکن بنانے کے پیشہ ورانہ کردار کی ادائیگی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین