پی ٹی آئی نے 8فروری کو صوابی میں جلسے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ خیبرپختونخوا کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کی ساری توجہ صوابی کے جلسے پر ہے۔ ادھر اسی تاریخ کو پی ٹی آئی نے لاہور کے مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کی اجازت کیلئے انتظامیہ کو درخواست دیدی ہے۔ یہ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ اس جماعت کو معلوم ہے کہ پنجاب سے حسب سابق کوئی بھی صوابی جلسہ میں آنے کو تیار نہیں ہے۔ ویسے بھی پنجاب میں پی ٹی آئی بھی اس پوزیشن پر آگئی ہے جس پر پاکستان پیپلزپارٹی تاحال کھڑی ہے۔ پنجاب کے لوگ جذباتی نہیں بلکہ صورتحال کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مخصوص مفادات کے لیے آئے روز کے احتجاجوں کو پنجاب نے مسترد کرنے کا مظاہرہ پہلے ہی دو مرتبہ کردیا ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہئے کہ 8فروری کو مینار پاکستان پر جلسہ کرنے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائے تاکہ آخری بار دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ صوابی ہو یا لاہور کے جلسے واحتجاج بلاجواز و لاحاصل مشق مکرر ہے۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے نومنتخب صدر نے جذباتی انداز میں بہت بڑی ذمہ داری کا ٹوکرا تو سر پر اٹھا لیا ہے لیکن کہیں یہ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والا معاملہ نہ ہو جائے۔ذرائع کے مطابق جنکی سفارش پر جنید اکبر خان کو صوبائی صدارت کی ذمہ داری دی گئی ہے انکے اور علی امین گنڈا پور کے درمیان شدید اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف چونکہ جنید اکبر اور انکے گروپ کے علی امین گنڈا پور کیساتھ اختلافات بھی پوشیدہ نہیں ہیں اسلئے پارٹی کی صوبائی صدارت کی ذمہ داری انکو دیدی گئی ہے۔ اس طرح یہ جنید اکبر خان کیلئے ایک بڑا امتحان ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی انکے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ نو منتخب صوبائی صدر نے پی ٹی آئی قیادت کو ہومیوپیتھک قرار دیا ہے اب 8فروری کو دیکھنا ہوگا کہ تمام تر بلند بانگ دعوئوں کے مطابق وہ ایلوپیتھک ثابت ہوتے ہیں یا حکیمی علاج کی طرف جاتے ہیں۔ ابھی تک نہ تو دیگر اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی پر اعتماد کرنے پر تیار ہیں نہ ہی پی ٹی آئی کی طرف سے کوئی خاص پیشرفت نظر آتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کبھی بھی پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار نہیں ہونگی کیونکہ یہ دونوں جماعتیں مدبرانہ سوچ اور سیاست کی حامل ہیں جبکہ پی ٹی آئی کا طرز سیاست ان سے بالکل مختلف ہے۔
دوسروں کو ہومیوپیتھک کہنے والے نے خود بھی جلسہ صوابی میں رکھا ہے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جس کے وزیراعلیٰ وہی علی امین گنڈاپور ہیں جنکی ان لوگوں نے بانی پی ٹی آئی سے شکایات کی تھیں۔ گویا نئی صوبائی قیادت جلسے کی کامیابی کیلئے اب بھی علی امین گنڈا پور کی محتاج ہے لیکن ذرائع نے بتایا ہے کہ علی امین گنڈا پور اب صرف وزارت اعلیٰ کے معاملے پر توجہ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور سیاسی معاملات بشمول صوابی جلسہ سے الگ ہوکر تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین نئے جج صاحبان کی تعیناتی کو نیا ایشو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کی طرح ایک بار پھر بندوق وکلاء کے کندھے پر رکھنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ افتخار چوہدری کے معاملے پر جن وکلاء نے ماریں کھائی تھیں ان کو افتخار چوہدری کی بحالی کے چند روز واہ واہ اور شاباش ملنے کے علاوہ کیا ملا۔ بلکہ مبینہ طور پر بعض نے کچھ ہی عرصہ بعد پچھتاوا محسوس کیا۔ اس بار تو وہ حالات بھی نہیں ہیں۔ یہ تو عدلیہ کی آپس کی لڑائی ہے جس کا فائدہ یا نقصان ان ہی کو ہے ۔ ویسے بھی وہ حالات ووجوہات اور تھے اور اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اور حالات ہیں۔ ججز کی تعیناتی اور اس سے پہلے بھی آپس کی لڑائی کی وجوہات اور ہیں۔ ایک مخصوص جماعت ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے ہر اس فرد، برادری اور گروپ کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے جن کے کسی تحریک ،اقدام یا احتجاج سے ملک میں افراتفری پھیلے۔ یہ طرز عمل سیاسی سوچ اور عمل کے بالکل متضاد ہے۔ اس کا نہ تو مخصوص جماعت کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے نہ ہی کسی کی رہائی ہو سکتی ہے۔ حکومتی رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 200اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ ہائی کورٹ کے ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ہے اسلئے صدر مملکت جب چاہیں ،کسی ہائی کورٹ سے ایک یا ایک سے زیادہ ججز کا تبادلہ کر سکتے ہیں البتہ اس کے لیے متعلقہ حج کی رضامندی ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی کیلئے جج صاحبان کو غیرجانبدار ہونا اور ججز کو با اختیار بنانا ضروری اور بنیادی شرائط ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے اور جج صاحبان بھی آئین کے تحت اٹھائے گئے حلف کی پاسداری کریں تو عدلیہ میں تقسیم یا کسی بھی قانونی و آئینی معاملے پر نوبت یہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ وکلاء صاحبان بھی اپنے موکلین کے مقدمات پر توجہ دیں جن سے وہ فیسیں لیتے ہیں اور اپنے کسی سیاسی مفاد کو ان بیچاروں کے مقدمات میں رکاوٹ و تاخیر ہرگز ترجیح نہ دیں ۔ ووٹ جسکو مرضی دیں لیکن سیاست سیاستدانوں کو کرنے دیں کہ یہ ان کا پیشہ ہے۔ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ جج صاحبان کے تبادلے کوئی نیا یا انوکھا اور غیرآئینی اقدام نہیں ہے اسکی مثالیں موجود ہیں۔ 2008ء میں جسٹس سردار محمد اسلم کو لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کر کے چیف جسٹس بنایا گیا تھا۔ 2009ء میں جسٹس ایم بلال خان کو لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبدیل کیا گیا اور چیف جسٹس بنایا گیا ۔ اسی طرح جسٹس اقبال حمید الرحمان کو لاہور سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبدیل کیا گیا تھا اور 18 ویں ترمیم کے بعد انکو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔اب بھی آئین کے مطابق تبادلے کئے گئے ہیں تو اس پر احتجاج بلاجواز اور لاحاصل ہے۔