ایک زمانے میں کبوتروں سے خط بھیجنے کا کام لیا جاتا تھا کچھ لوگ آج بھی کبوتروں سے یہ کام لیتے ہیں حالانکہ خط لکھنا اور لکھوانا آؤٹ آف فیشن ہو چکاہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون نے محبت کرنے والوں کا کام آسان کر دیاہے ۔ آج کے دور میں آپ کا محبت نامہ پلک جھپکتے اسکے پاس پہنچ جاتا ہے، جسے آپ اپنا حال دل سنانا چاہتے ہیں لیکن عمران خان نے عجیب کام کیا! موصوف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ایک خط لکھا جو ان تک پہنچا ہی نہیں۔خان صاحب نے جیل میں سجائی گئی ایک عدالت میں موجود صحافیوں کو خود ہی اس خط کے بارے میں بتایا اور پوری دنیا میں شور مچ گیا۔ ہر کسی نے اس خط کے مندرجات پر اپنی اپنی پسند کا تبصرہ کیا۔مجھ سے بھی کئی دوستوں نے پوچھا کہ آپ کا عمران خان کے اس خط پر کیا خیال ہے ؟میں نے کہا پہلے مجھے خط دکھاؤ، خط کسی کے پاس نہیں تھا ۔نہ تو خط لکھنے والے نے خط کی نقل جاری کی اور نہ ہی کہیں خط وصول ہوا لیکن خط پر دھڑا دھڑ تبصرے شروع ہو گئے۔ دل میں خیال آیا کہ شائد عمران خان کا کبوتر جنرل عاصم منیر کے بجائے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے گھر خط نہ دے آیا ہو لیکن باجوہ صاحب کے قریبی دوستوں نے بتایا کہ ایسا کوئی کبوتر ان کے پاس نہیں پہنچا۔ا س گھمبیر صورتحال میں میر تقی میرؔ کا یہ شعر یاد آنے لگا؎
کچھ خلل راہ میں ہوا اے میرؔ
نامہ برکب سے لے گیا ہے خط
عمران خان چاہتے تو بیرسٹر گوہر خان یا علی امین گنڈا پور کے ذریعےاپنا پیغام آرمی چیف تک پہنچا سکتے تھے لیکن انہوں نے ان دونوں کو اپنا کبوتر کیوں نہیں بنایا ؟شاید انہوں نے کھلا خط بھجوانے کی کوشش کی ہے کیونکہ خط کے مندرجات میں کوئی نیا نکتہ نظر نہیں آتا۔ خان صاحب نے خط میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن عوام اور اداروں میں فاصلے پیدا ہونے کی کچھ وجوہات ہیں جو 8فروری 2024ء کے متنازع الیکشن سے شروع ہوتی ہیں اور 26ویں آئینی ترمیم کے بعد پیکا ترمیمی ایکٹ کی صورت میں بڑھتی جا رہی ہیں۔عمران خان کہتے ہیں کہ یہ فاصلے ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنی پالیسی تبدیل کریں لیکن دوسری جانب سے جواب آیا ہے کہ نہ تو ہمیں کوئی خط ملا ہے اور نہ ہی ہم کسی خط کا جواب دینا چاہتے ہیں ۔مومن خان مومن ؔنے کہا تھا ۔
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
عمران خان کے خط کے جواب میں ہمیں کسی قاصد کی لاش تو دکھائی نہیں دے رہی لیکن شک گزر رہا ہے کہ خان صاحب نے اپنے کھلے خط کے ذریعہ ایک خطرناک کھیل شروع کر دیا ہے ۔ان کے خط کو فوج میں تقسیم پیدا کرنے کی سازش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ خان صاحب نے حالیہ دنوں میں صرف آرمی چیف نہیں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نام بھی ایک خط بھیجا ہے۔ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ مزید خطوط بھی لکھیں اور ہمیں مرزا غالبؔ کی یاد دلائیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ ؎
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
لیکن عمران خان کو تو خط کا جواب ہی نہیں ملا پھر وہ دوبارہ خط کیوں لکھیں گے؟بات دراصل یہ ہے کہ جس طرح خان صاحب نے میڈیا کے ذریعہ ایک کھلا خط آرمی چیف کو بھجوایا لیکن خط کی نقل جاری نہیں کی اسی طرح دوسری طرف سے بھی باقاعدہ جوابی خط تو جاری نہیں کیا گیا لیکن ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے جوابی پیغام تو جاری کیا گیا ہے۔
بقول شکیلؔ بد ایونی
کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات
آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا
امیرؔ مینائی نے بھی کچھ ایسا ہی فرمایا تھا
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ عمران خان کا خط مجھے بار بار اردو کے بڑے بڑے شاعروں کے کلام میں کیوں الجھا رہا ہے ،یہ شاعر اپنی غزلوں اور نظموں میں محبوب کی بے وفائی یا بے اعتنائی کا شکوہ کیا کرتے تھے۔ان شاعروں کے کلام میں خط ،قاصد یا نامہ برکا بہت ذکر ملتا ہے کیونکہ ان شاعروں کے زمانے میں محبوب یا محبوبہ کے ساتھ رابطے کا ذریعہ خط ہی ہوا کرتے تھے ۔شاید خان صاحب کو بھی کسی محبوب کی بے وفائی یا بے اعتنائی نے اضطراب کا شکار کررکھا ہے۔اڈیالہ جیل کی سلاخوں کےپیچھے شاید انہوں نے غلام علی کی آواز میں یہ غزل سن لی ہو۔
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
یہ غزل کسی زمانے میں داغ دہلویؔ نے لکھی تھی جس کے اگلے شعر میں انہوں نے شکوہ کیا۔
وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سےپوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
عمران خان نے جنرل عاصم منیر کے نام خط میں کچھ ایسے ہی شکوے کئے ہیں۔انہوں نےپیغام دیا ہے کہ مجھ پر کوئی الزام ہے تو جوڈیشل کمیشن سے انکوائری کروا لیں اور اگر میں آپ پر کوئی الزام لگا رہا ہوں تو اس کی بھی جوڈیشل انکوائری کروالیں۔خان صاحب کے اس کھلے خط میں دراصل ایک چارج شیٹ چھپی ہوئی ہے جو محاذ آرائی کی چنگاریوں کو شعلے بنانے کا باعث بن سکتی ہے ۔
اس خط کی نقل تو میرے پاس موجود نہیں لیکن اس خط پر ردعمل نے مجھے مرزا محمد رفیع سودا ؔکے اس شعر کی یاد دلائی ہے ؎
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہو گا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا
تو جناب یہ خان صاحب کا خط نہیں بلکہ آپ کی اور میری الجھنوں کا نیا آغاز ہے عمران خان اور ریاستی اداروں میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کسی کے فائدے میں نہیں۔آخر میں فانی بد ایونی ؔ کا شعر پیش ہے۔
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے