گزشتہ چند ماہ سے ایک ایسے ملک سے بے شمار مثبت خبریں موصول ہورہی ہیں جو آج سے فقط پانچ دہائیاں قبل پاک سرزمین کا اہم حصہ تھا، جہاں سے تحریک ِ پاکستان کا آغاز ہوا اور جہاں کے باسیوں نے دل و جاں سے قائداعظم کی قیادت میں قیامِ پاکستان کیلئے سردھڑ کی بازی لگادی تھی، حالات کا ستم کہا جائے، اپنوں کی نادانی یا غیروں کی سازشیں، ماضی کا مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر آج بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔تاہم میرے آج کے ہفتہ وار کالم کا موضوع بنگلہ دیش کے موقر اخبار ڈھاکہ ٹریبون کی ایک خبر ہے جسکے مطابق بنگلہ دیش نیوی کا بحری جہاز چٹاگانگ سے روانہ ہوچکا ہے اور اس وقت کراچی کی بندرگاہ کی جانب گامزن ہے، بی این ایس سومودرا جوئےنامی بحری جہاز میں سوارتین سو سے زائد بحریہ کے افسران اور دیگر عملے کو پاکستان کی سمندری حدود کی جانب رخصت کرنے کیلئےایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، دوسری طرف کراچی میں ایکسرسائز امن 2025کے عنوان سےمنعقدہ بین الاقوامی بحری عسکری مشق میں بنگلہ دیش کی بھرپور شرکت یقینی بنانے کیلئے بنگلہ دیشی جہاز کے لنگرانداز ہونے کے تاریخی لمحات کا بے تابی سے انتظار کیا جارہا ہے، کہا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بنگلہ دیش سے کوئی نیول شپ پاکستانی سمندروں میں آرہا ہے، مذکورہ جہاز سات فروری سے لیکر گیارہ فروری تک کراچی بندرگاہ پر موجود رہے گا، بنگلہ دیشی میڈیا کا کہنا ہے کہ بی این ایس سومودرا جوئے پاکستان کے سفر کے دوران خطے کے دیگر علاقائی ممالک بشمول سری لنکا اور مالدیپ کا بھی خیرسگالی دورہ کرے گا، تاہم یہ امر باعث ِ دلچسپی ہے کہ بنگلہ دیشی جہاز کے تاریخی سفر کے دوران بھارت کی کسی بندرگاہ پر لنگرانداز ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔بنگلہ دیش میں واقع چٹاگانگ پورٹ اور پاکستان کی کراچی بندرگاہ کے درمیان براہ راست سمندری رابطہ گزشتہ برس نومبر میں قائم ہوا تھا جب اکہتر میں علیحدگی کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی بحری جہازکو چٹاگانگ پرلنگرانداز ہونے کی اجازت ملی تھی،مجھے یاد ہے کہ تین سال قبل ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ اگست 2022 میں بنگلہ دیش نے پاکستانی نیوی کے بحری جہاز پی این ایس تیمور کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیاتھا، یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا حالیہ پیش رفت کو پاکستان بنگلہ دیش کے پیچیدہ سفارتی تعلقات میں ایک تاریخی تبدیلی کا عکاس قرار دیتے ہوئے رپورٹ کررہا ہے کہ محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش کی نئی عبوری حکومت پاک بنگلہ تعلقات میں گرمجوشی کی خواہاں ہے۔ شیخ حسینہ کے دورِ اقتدار میں پاکستانی جہازوں کو براہِ راست نقل و حرکت کی اجازت نہ ہونے کے سبب طویل راستے، اضافی لاگت اور وقت کے ضیاع جیسے مسائل کا سامنا تھا، شیخ حسینہ حکومت میں پاکستانی کارگو جہازوں کو ریڈ لسٹ میں شامل کیے جانے کے باعث مختلف مشکلات کا سامنا تھا جنہیں اب دورکیا جارہاہے، پاکستان کی بزنس کمیونٹی براہ راست بحری راستے کی بحالی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سمندری سفر کا دورانیہ گھٹ کر صرف دس دن پر محیط ہونے پر خوشی کا اظہار کررہی ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق کراچی اور ڈھاکہ کے درمیان براہ راست فضائی سروس بھی شروع ہورہی ہے اور پاکستانی شہریوں کیلئے ویزہ آن آرائیول کی سہولت کا اعلان بھی کردیا گیا ہے ۔تاریخی طور پر قیام ِ بنگلہ دیش کے بعد ایک طویل عرصے تک دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں اُتارچڑھاؤ آتا رہا، تاہم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے پاکستان دشمنی میں تمام حدیں پار کردی تھیں ، شیخ حسینہ نے جبر پر مبنی اپنی حکومت کو طول دینے کیلئے بنگلہ دیش کو بھارت کی ایک طفیلی ریاست بنادیا تھا،کرما کے سال 2024ء میں بپھرے ہوئے عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندرانکا اقتدار بہا لے گیا ۔ شیخ حسینہ کے سیاہ دور میں قید و بند کی صعوبتیں بہادرانہ وار جھیلنے والے محمد یونس پر قسمت مہربان ہوئی تو انہوں نے عبوری حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوری اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو اپنی ترجیح بنایا۔ ماضی میں ایک ساتھ رہنے والے دونوں خودمختار ممالک کے سفارتی تعلقات میں بریک تھرو وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور بنگلہ دیشی حکمران محمد یونس کے درمیان ستمبرمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملاقات کے دوران آیا اور دونوں راہنماؤں نے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے پر اتفاق کیا، محمد یونس نے ڈھاکا واپسی کے بعد متعدد ایسے مثبت اقدامات کیے جس سے ثابت ہوا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے اپنی ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پُرعزم ہیں،جنوری کے وسط میں بنگلہ دیشی فوج کے سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن کے دورہ پاکستان نے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کردوستی کا ایک نیا عہد شروع کرنے کا سندیسہ پہنچایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمارے خطے میں ایک نیا علاقائی منظرنامہ تشکیل پارہا ہے جس میں کلیدی کردار پاکستان، بنگلہ دیش اور چین کا ہے جبکہ بھارت کاخطے پر اثرورسوخ کم کرنے کیلئے مذکورہ تینوں ممالک کے مابین قریبی تعلقات کا فروغ نہایت ضروری ہے۔میں نے سالِ نو کی آمد پرسال 2025ء کو عالمی سطح پرمفاہمت، تعاون اور تعلقات میں بہتری کا برس قرار دیا تھا، میرا آج بھی یہی کہنا ہے کہ یہ سال ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا سال ہے، ابھی نئے سال کا ایک ماہ ہی گزرا ہے اور ایسی بے شمار خبریں عالمی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں جن سے عالمی امن اور علاقائی استحکام یقینی بنانے کی کوششوں کو تقویت ملتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کوبدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کریں اور درست وقت پر درست فیصلہ کرنے کی افادیت سمجھیں ، آج اگر ہم نے اپنے آپ کو نئے علاقائی منظرنامے میں ایڈجسٹ نہ کیا تو وقت بہت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔