نہ صرف نثری ادب کے انبار لگے ہیں بلکہ شاعری کے بھی دیوان بھرے پڑے ہیں تقسیم ہند کے حوالے سے بائیں بازو کی فکری تنظیموں کی جانب سے اکثر ایسے بیانیے بنائے اور پھیلائے جاتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بہتری اور مضبوطی آنی چاہیے اور ویزوں میں آسانی ہونی چاہیے کیونکہ دیگر اقوام و ممالک سے تو محض مذہب اور افکار و خیال کے رشتے ہیں جبکہ ہم اہالیانِ ہند و پاک کے آپس میں نسب و خون کے گہرے اور سانجھے رشتے ناطے ہیں۔ فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، نون میم راشد، سجاد ظہیر اور احمد فراز سمیت متعدد ترقی پسند سُرخے ساری زندگی یہی رونا روتے رہے کہ ”اک مک ہو کے رہنا چاہی دا اے‘‘۔ میرے محسن و محترم حمید اختر اپنے ہر دوسرے کالم میں اپنے لدھیانہ کو یاد کرتے اور روتے تھے فریاد کرتے تھے کہ کاش پاکستان بھارت بھائی بھائی بن جائیں۔ ہم پنجابی ادبی سنگت اور ورلڈ پنجابی کانگریس ایسے کئی ادبی اور ثقافتی فورمز سے بار بار وارث شاہ جی کو بھی جگاتے رہے۔ ایسے نظریات اور ایسی سوچوں سے میرا ذاتی طور پہ کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم اس کا کیا کریں کہ حکومت پاکستان نے مختلف ادوار میں نرمی کا مظاہرہ کیا، محبت کا اظہار کیا اور بہتر تعلقات اور دوستی کے لیے بھی ہاتھ بڑھایا مگر انڈیا کی ہٹ دھرمی ، جنون اور انتہاپسندی میں کہیں کوئی کمی نظر نہ آئی۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، انسانی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔ ساری دنیا یہ بھارتی مظالم دیکھ رہی ہے، کسی سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا اور اب تو انڈین انتشار اور سازشیں آزاد کشمیر تک بھی آن پہنچی ہیں ۔ ان حالات میں سپہ سالار نے بروقت اور برحق صدا بلند فرمائی ہے، ISPR کے مطابق جی ایچ کیو راولپنڈی میں 267ویں کور کمانڈر کانفرنس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ ”بھارتی فوج کے کھوکھلے بیانات ان کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی نشاندہی کرتے ہیں، اس قسم کے بیانات اپنے عوام اور عالمی برادری کی توجہ بھارت کے اندرونی خلفشار اور اس کی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے ہیں۔ کسی بھی مہم جوئی کا پاکستان مکمل طاقت کے ساتھ جواب دے گا انشاء اللہ پاکستان آرمی ملکی خود مختاری اور سالمیت کے دفاع کیلئے پوری طرح تیار ہے“۔ پاک فوج جیسی کوئی فوج نہیں ہے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (ISPR) کے مطابق بسلسلہ پانچ فروری آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے مظفرآباد کا دورہ کیا، شہدا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا، جموں و کشمیر یادگار گئے وہاں یادگارِ شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی، ان کی بے مثال قربانیوں کو سراہا، کشمیر میں جاری مشکل ترین آپریشنل حالات میں متعین افسران اور جوانوں کی غیر متزلزل لگن، پیشہ ورانہ برتری اور جنگی تیاری کی بھی تعریف کی۔ جنرل سید عاصم منیر نے ”مسلح افواج کی جنگی تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا، کشمیر کی خاطر تین جنگیں لڑیں، دس مزید بھی لڑنا پڑیں تو لڑیں گے،
کشمیر بنے گا پاکستان“۔ اپنے سپہ سالار کی یہ بات برحق ہے کہ بے شک مسلمان کبھی دشمن کی تعداد یا ہتھیاروں سے نہیں گھبراتا۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر اللہ کا گروہ ہی ہمیشہ غالب رہے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم مسلم ہی ہیں جو 313 ہو کر بھی ہزاروں کا مقابلہ کر کے فتح اور نصرت حاصل کرنے والے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم سپہ سالار اور ان کی اس للکار کے سنگ رہے اور سب کی ایک ہی پکار ہونی چاہیے کہ پاک وطن کو اور پاک فوج کو سلام۔ میری نظر میں پاک فوج کے موجودہ ترجمان یعنی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (ISPR) کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری انتہائی محنتی اور متحرک بلکہ ایک اچھوتے اور منفرد فوجی جرنیل ہیں جو علم و حکمت اور ازحد تحمل و تدبر والے ہیں۔ وہ جب بھی بولتے ہیں تو استدلال اور استقلال کے ساتھ مثبت اور سبق آموز بات کرتے ہیں ، بلاشبہ ان کا اندازِ تکلم بھی باوقار اور شاندار ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے وزیر اعظم کی یوتھ کونسل اوورسیز سے ملاقات کی اور یوتھ کونسل بیچ کے نوجوانان سے مکالمہ بھی کیا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے یوتھ کونسل کے نوجوانان پر پاکستان کی اہمیت، اس کے نظریے اور ملک سے محبت کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان 27رمضان کے بابرکت دن کو وجود میں آیا اور یہ اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان ریاست مدینہ کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے جو ریاست طیبہ ہے، ہمارے لیے ملک کی قدر و منزلت اس سے محبت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے، ہمیں پاکستان کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے اور اس کے خلاف آنے والی فیک نیوز کا مقابلہ کرنا ہو گا۔‘‘ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ہم فوج سے ہیں اور فوج ہم سے ہے، جو لوگ بھی پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں اور فوج میں خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں رد کیا جائے۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں کے حوالے سے محرومی کا جھوٹا بیانیہ بنایا جاتا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، حقیقت اس کے برعکس ہیں۔ ان ملک دشمن عناصر کو پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی اور یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں“۔ واقعی شتر بے مہار سوشل میڈیا کو لگام ڈالنا ضروری ہو گیا ہے جہاں ہر کوئی صحافی بنا بیٹھا ہے اور نہ صرف من گھڑت خبریں بلکہ بدگمانی اور بے حیائی بھی پھیلائی جا رہی ہے لیکن میں اپنی صحافتی تنظیموں سے بھی متفق ہوں کہ یہ پیکا ایکٹ در حقیقت اہل صحافت کے ہاتھ سے قلم چھیننے کے مترادف ہے، کل میں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جو اس اتحادی حکومت کا پیکا ہے یہ میڈیا کو لگانے کیلئے بے ہوشی اور خاموشی کا ایک ٹیکا ہے‘‘۔ میری درخواست ہے کہ پیکا ایکٹ کو صرف سوشل میڈیا پر ہی لاگو ہونا چاہیے۔