• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صہیونی ریاست اسرائیل کا قیام آٹھ دہائی پہلے اسکے مغربی سرپرستوں کی پشت پناہی میں فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔اس حقیقت کا قطعی واضح دستاویزی ثبوت صہیونی ریاست کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان کا عالمی یہودی کانگریس کے صدر ناہم گولڈ مین کو لکھا گیا خط ہے جس میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے فلسطینیوں کا ملک چرایا ہے لہٰذا وہ اسے درست کیوں مانیں ۔ امریکی محققین پروفیسر جان میئر شیمر اور پروفیسر اسٹیفن والٹ نے اپنی کتاب ’’دی اسرائیل لابی اینڈ یوایس فارن پالیسی‘‘ میں یہ خط نقل کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اسرائیلی قیادت کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے تجویز کردہ دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی غیر معقول تجویز پیش کی ہے۔ امریکہ میں اسرائیلی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں سعودی حکومت کی جانب سے اسرائیل سے تعلقات کیلئے فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط عائد کیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انکا کہنا تھاکہ دوریاستی حل اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے لہٰذا سعودی عرب اپنے ملک میں فلسطینی ریاست قائم کرلے ،اسکے پاس بہت زمین ہے۔ اپنی تجویز کے حق میں اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ گمراہ کن دلیل دی کہ فلسطینیوں کے پاس ایک ریاست تھی جس نام غزہ تھا جو حماس کے زیر قبضہ تھی مگر دیکھیں سات اکتوبر کو کیا ہوا اور ہمیں کیا ملا، اس لیے ہمیں فلسطینی ریاست قبول نہیں۔حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ سات اکتوبر کی کارروائی آٹھ دہائیوں سے جاری ظلم اور بے انصافی کے خلاف تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مظلوموں کا احتجاج تھا۔اس کا حل حق تلفی اور بے انصافی کے رویوں کو مزید جاری رکھنا نہیں بلکہ حقدار کو اس کا حق دینا ہے۔ مزید یہ کہ اگر نیتن یاہو سات اکتوبر کے واقعات ہی کی وجہ سے دوریاستی حل کو مسترد کر رہے ہیں تو کیا اس سے پہلے وہ دوریاستی حل کیلئے تیار تھے؟ ظاہر ہے کہ صہیونی حکمرانوں کی مستقل پالیسی ہی دوریاستی حل سے گریز اور انکار کی ہے۔لہٰذا سات اکتوبر کو اس کی وجہ قرار دینا محض ایک مضحکہ خیز بہانہ ہے جس کا جھوٹ اور فریب ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سعودی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ’’ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آنے کا معاملہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر زیر غور نہیں آسکتا۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا، فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق سعودی عرب کا مؤقف مضبوط اور غیر متز لزل ہے۔‘‘ اسرائیلی وزیر اعظم کی غیر معقول تجویز کی مصر نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سعودی خودمختاری کے منافی قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی مصر کی ریڈ لائن ہے۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر قبضہ کرکے اسے امریکہ کی ملکیت بنانے اور غزہ کے باسیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کردینے کے اعلان کے چند روز بعد اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان سے کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ اسرائیل سے کرنے کے بجائے اپنی ہی زمین پر فلسطینی ریاست قائم کرلے، صہیونی حکمرانوں اور انکی سرپرست سپر پاورکے مذموم ارادوں اور منصوبوں کا کسی حد تک اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان پر سعودی انٹلیجنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے صدر ٹرمپ کو خط لکھ کر یہ دوٹوک جواب دیا تھا کہ غزہ کے فلسطینی کوئی غیرقانونی تارکین وطن نہیں ہیں کہ انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں ممکنہ صہیونی منصوبوں کو محض بیانات سے ناکام نہیں بنایا جاسکتا، اس کیلئے مسلم دنیا کو متحد ہوکر مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی اور نتیجہ خیز اقدامات کرنا ہونگے۔

تازہ ترین