’’ کیا مَیں کام یاب ہوں؟‘‘ یہ اُن سوالات میں سے ایک ہے، جس پر صدیوں سے دنیا کے تمام ہی مفکّرین نے اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ہے، لیکن آج تک کسی ایک مفکّر کی تشریح سے دوسرے نے اتفاق کیا ہے اور نہ ہی کسی ایک تشریح پر تمام اہلِ دانش مطمئن ہوئے ہیں، کیوں کہ کام یابی ایک کثیر الجہتی تصوّر ہے، جسے عموماً افراد کے انفرادی اہداف اور نقطۂ نظر کی بنیاد پر مختلف پہلوؤں سے بیان کیا جاتا ہے۔
معروف مصنّفین، فلسفیوں اور سماجی مفکّرین نے اِس موضوع پر گہری بصیرت پر مبنی آراء پیش کی ہیں۔ مثلاً ایک معاصر صاحبِ فکر، ندیم ہاشمی کے مطابق، کسی انسان کے لیے ہر وہ دن کام یابی کا ہے، جس میں وہ ہنسے اور صحت یاب رہے۔ اِسی طرح ایک امریکی مضمون نگار، لیکچرار، فلسفی، سیاست دان اور شاعر، رالف ولڈ ایمرسن کے مطابق (جو اپنے مختصر نام’’ والڈو‘‘ سے مشہور تھے) کام یابی سے مُراد یہ ہے کہ اکثر اور زیادہ ہنسا جائے، لوگوں کی عزّت اور بچّوں کا پیار جیتا جائے۔
گویا، ایمرسن شہرت اور دولت کی بجائے کام یابی کو ایک جامع اور اخلاقی کام یابی کے طور پر اہمیت دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ زندگی میں مثبت فرق لانا اور محبّت و احترام حاصل کرنا ہی اصل کام یابی ہے۔‘‘سر ونسٹن لیونارڈ اسپینسر چرچل ایک برطانوی سیاست دان، فوجی افسر اور مصنّف تھے۔ اُن کا ایک مشہور اقتباس کچھ یوں ہے کہ’’ کام یابی حتمی نہیں ہے، ناکامی مہلک نہیں ہے، بلکہ ناکامی کی بھی کوشش کو جاری رکھنے کی حوالے سے اپنی ایک اہمیت ہے۔‘‘ ونسٹن چرچل ثابت قدمی کو کام یابی کے جوہر کے طور پر اجاگر کرتے ہیں۔
اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’کام یابی کا مقصد آرام کرنا ہے اور نہ ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا۔ نہ ہی ناکامی مقصد کے حصول سے باز آنے کا نام ہے۔‘‘ اِس کے برعکس، مایا اینجلو کا، جو ایک امریکی شاعرہ اور شہری حقوق کی کارکن تھیں، کہنا ہے کہ’’ کام یابی سے مُراد اپنے آپ کو پسند کرنا ہے، یعنی آپ جو کام کرتے ہیں اور اُسے جس انداز سے کرتے ہیں، اُس سے خود آپ کو محبّت ہو۔‘‘ گویا، اینجلو کام یابی کو بیرونی توثیق کی بجائے اندرونی اطمینان کے طور پر دیکھتی ہیں، جس کا مطلب خود کو قبول کرنا، اپنے کام اور دیانت داری پر فخر کرنا ہے۔
دوسری طرف، ایک مسلم اسکالر، مفتی منک کے نزدیک، جن کا پورا نام اسماعیل ابنِ موسیٰ مینک ہے اور وہ زمبابوے کے معروف خطیب اور مسلم علماء کاؤنسل کے شعبۂ فتویٰ کے سربراہ ہیں،’’ کام یابی کا مطلب ایک اچھا روزگار، خوش حال خاندان، وسیع بینک بیلینس نہیں، بلکہ اصل کام یابی جنّت کا حصول ہے۔‘‘ اِس سے یہ مُراد نہیں کہ انسان کو مذکورہ بالا چیزوں کی خواہش نہیں رکھنی چاہیے۔
اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھی نوکری، خُوب صُورت گھر، بیوی بچّے، دولت انسان کی بنیادی ضروریات ہیں، لیکن یہ سب جنّت کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں۔جب نجی اداروں کے ملازمین سے کام یابی سے متعلق سوال پوچھا گیا، تو کچھ دل چسپ نتائج سامنے آئے۔ شہباز ساتکزئی، یونیسف کے ایک پراجیکٹ میں بطور سینئیر مانیٹرنگ آفیسر کام کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ’’ کام یابی دراصل ضمیر کا مطمئن ہونا ہے۔‘‘ اُنہوں نے اپنے مؤقف کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرتے ہوئے کہا کہ’’میرے ایک ایسوسی ایٹ نے ڈگری حاصل کی، لیکن اُسے اس ڈگری سے متعلق علم پر عبور نہیں تھا، لہٰذا بظاہر تو وہ کام یاب ہوا، لیکن اُس کا ضمیر مطمئن نہیں۔‘‘شاہ فیصل، یونیسف کے ایجوکیشن پراجیکٹ میں بطور کمیونی کیشن ایسوسی ایٹ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اُن کا ماننا ہے کہ ’’کام یابی حصّوں میں تقسیم ہوتی ہے، انسان زندگی گزارنے کے لیے ایک مقصد کا تعیّن کرتا ہے اور پھر اس کے حصول کے لیے چھوٹے چھوٹے مقاصد پہ کام کرنے لگ جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ہدف کا حصول ایک چھوٹی سی کام یابی ہوتی ہے اور اپنے مقاصد کا حصول ہی دراصل زندگی میں کام یابی کہلاتی ہے۔‘‘
جب یہی سوال کلاس فور کے ملازمین سے پوچھا گیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’موجودہ دَور میں دراصل دولت کا ہونا ہی اصل کام یابی ہے کہ اِس نفسا نفسی کے دَور میں کوئی بھی شخص دوسرے کی مدد کے لیے تیار نہیں ہوتا، ہر مشکل وقت میں انسان کا ساتھ صرف اور صرف پیسا ہی دیتا ہے۔‘‘
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شعبۂ فکر کے لیے کام یابی ایک مختلف معنی اور تشریح رکھتی ہے۔ مثلاً ایک مصوّر کام یابی کو مجسمے کی شائستگی میں ڈھونڈتا ہے، تو کوئی مذہبی تعلیمات کی پیروی ہی کو کام یابی سمجھتا ہے۔ سیاسی رہنما کو عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں، کسی محقّق کو اپنی تحقیق کے اچھے جریدے میں شائع ہونے میں، غریب کو غربت پر غلبہ پانے میں، طالبِ علم کو امتحان میں کام یاب ہونے میں، کسی پراجیکٹ منیجر کو اپنے منصوبے کی اچھے طریقے سے تکمیل میں اور کاروباری شخص کو کاروبار کی وسعت میں کام یابی نظر آتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کام یابی کو اپنے دائرۂ کار، علم اور ماحول کے مطابق بیان کرتا ہے اور یوں کام یابی کی کوئی حتمی تعریف اور متفّقہ تشریح ایک مشکل امر ہے۔