مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے پَردادا، وڈیرہ امیر خان مہندانی مَری 1924ءکو بلوچستان کے ضلع سیوی کی تحصیل کوہلو میں پیدا ہوئے۔ اُس زمانے میں ہمارا قبیلہ، کوہلو میں انگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔ ہمارے دادا، میر فتح خان مَری بتاتے ہیں کہ اُن کے دادا بھی اس جنگ میں شریک تھے۔ 1924ء کو جب میرے پَردادا پیدا ہوئے، تو اُسی برس، انگریزوں کے ساتھ قبائلی رواج کے مطابق صلح ہوگئی۔ مَری قبیلے کی بہادری کا اعتراف خود برطانوی مصنّف کیمبرک نے اپنی کتاب’’The Marri rising‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
میرے پَردادا کم عمری ہی میں والدین کے انتقال کی وجہ سے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے تھے، لہٰذا اوائل عُمری ہی سے سخت محنت اور جدوجہد کے عادی ہوگئے۔ ہر ایک کے دُکھ درد میں کام آتے، اپنے قبیلے کے لوگوں سے بے انتہا محبت کرنے اور ان کے خیر خواہ ہونے کے سبب محض19برس کی عُمر میں انھیں قبیلے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اُن کا شمار، معروف سیاست دان، نواب خیر بخش مری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
1951ء میں نواب خیر بخش مری کی دستار بندی میں بھی شریک ہوئے اور زندگی کے آخری ایّام تک اُن کے ساتھ رہ کر دوستی اور وفاداری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ انھوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کی تعلیم، روزگار اور فلاح وبہبود کے ضمن میں ہمیشہ آواز بلند کی۔ اس حوالے سے ملک کی مقتدر شخصیات سے گاہے بہ گاہے ملاقاتیں بھی کیں، تاہم ملکی سیاست سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ اُن کی زندگی کا مقصد صرف اپنے قبیلے کے لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔
ہر دل عزیز شخصیت کے حامل، میرے پَردادا، انتہائی ایمان دار، فرض شناس، سادہ مزاج، نرم گفتار اور اللہ پر کامل بھروسا رکھنے والے انسان تھے۔ اپنی ذات پسِ پشت ڈال کر ہمیشہ قبیلے کے لوگوں کے مسائل کے حل میں دل چسپی لیتےاور اس ضمن میں ہر ممکن جدوجہد کرتے۔ 1985ءکے عام انتخابات میں سابق وزیر ِاعلیٰ، بلوچستان، نواب زادہ ہمایوں خان مری کی کام یابی میں انھوں نےاہم کردار ادا کیا۔
جب ہمایوں خان مَری رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد صوبائی وزیرِ خزانہ بنے تومیرے پر دادا نے اُن سے خصوصی ملاقات کی اور اپنے علاقے داد علی شہر کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی خصوصی درخواست کی۔ بعدازاں، داد علی شہر (اب جہانگیر آباد) میں سول ویٹرنری اسپتال اور مڈل بوائز اسکول کی تعمیر کے علاوہ اپنی کوششوں سے کئی زرعی منصوبوں پر بھی کام کروایا۔
ساری زندگی انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے خود کو وقف کردینے والے میرے پردادا 2011ءمیں 87برس کی عُمر میں اس دارِفانی سے کوچ کرگئے، لیکن آج بھی اپنی بے لوث خدمات کے باعث لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے پَردادا کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (میر شیراز مَری، جہانگیر آباد، کوہلو)