سی پیک ایک اقتصادی منصوبہ ہے، جو پاکستان اور چین کے درمیان 2013ء میں شروع ہوا، لیکن اس کا باقاعدہ آغاز 2015ء میں کیا گیا۔ چین، پاکستان معاشی راہ داری نہ صرف پاکستان اور چین، بلکہ پورے خطّے کے لیے’’گیم چینجر‘‘ قرار دی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہ یہ تجارتی راستہ چین کو پاکستان سے بذریعہ سڑک اور سمندر ملائے گا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا۔ اِس منصوبے سے دونوں ممالک تجارتی اور معاشی لحاظ سے مزید مضبوط اور خوش حال ہوں گے۔
پاک، چین اقتصادی راہ داری مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچُکی ہے اور اس عرصے میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں آگ و خون کا دریا عبور کرنا پڑا کہ مُلک دشمن قوّتیں اِس میگا منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے درجنوں دہشت گردانہ حملے کروا چُکی ہیں، جن میں سیکڑوں افراد لقمۂ اجل بنے، جب کہ آنے والے دنوں میں بھی اِس منصوبے کے خلاف سازشوں اور تخریبی کارروائیوں میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، خوش آئند امر یہ ہے کہ یہ منصوبہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
20جنوری 2025ء کو سی پیک کے ایک انتہائی اہم حصّے، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو باقاعدہ طور پر فعال کردیا گیا۔اِس ایئر پورٹ کا افتتاح گزشتہ برس یومِ آزادی کے موقعے پر کیا جانا تھا، لیکن سیکیوریٹی خدشات کے باعث افتتاحی تقریب مؤخر کردی گئی۔ پھر14 اکتوبر2024 ء کو چینی وزیرِ اعظم، لی چیانگ نے اسلام آباد سے گوادر ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا۔
تین ماہ کے وقفے سے20 جنوری کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پہلی پرواز، پی کے-503 کراچی سے 46مسافر لے کر کمرشل پرواز کی حیثیت سے لینڈ ہوئی، تو اُسے واٹر سلیوٹ دیا گیا۔یاد رہے، گوادر کا پرانا ایئرپورٹ1966ء سے فعال ہے۔ 80ء اور2000ء کی دہائی میں یہاں نئی تعمیرات کی گئیں، لیکن اِس پرانے ایئرپورٹ پر صرف چھوٹے طیارے ہی اُتر سکتے ہیں۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرّف کے دَور میں جب گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ پر کام شروع کیا گیا، تو نئے ایئرپورٹ کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے پیشِ نظر اِس منصوبے کا آغاز وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے19اگست2005ء کو سِول ایوی ایشن کو احکامات دیتے ہوئے کیا۔
منصوبے کی فزیبلٹی پر کام کیا گیا، لیکن آنے والے کئی برسوں تک یہ منصوبہ کاغذی کارروائیوں ہی تک محدود رہا۔کام کے آغاز و تکمیل کی تاریخوں اور اخراجات کا تخمینہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا۔2010ء میں منصوبے کی لاگت کا تخمینہ ساڑھے سات ارب روپے اور2015ء میں22 ارب روپے لگایا گیا۔2015ء میں پاک، چین اقتصادی راہ داری منصوبے کا حصّہ بننے کے بعد اِسے ترجیحی فہرست میں رکھا گیا اور اس کے ڈیزائن میں بہت وسعت لائی گئی، جس سے تخمینہ بڑھ کر پہلے55 ارب اور پھر60ارب تک پہنچ گیا۔
چین نے منصوبے کے لیے قرض فراہم کرنے کا وعدہ کیا، بعدازاں2017ء میں قرض کو امداد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اومانی حکومت نے بھی منصوبے کے لیے امداد فراہم کی، لیکن ایئرپورٹ پر عملی طور پر کام تب بھی شروع نہ ہو سکا۔ اگرچہ مارچ2019 ء میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم، عمران خان نے نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا سنگِ بنیاد رکھا، لیکن اس کے باوجود تعمیراتی کام سات ماہ کی تاخیر سے اکتوبر2019ء میں شروع ہوا۔ اُس وقت منصوبے کی تکمیل کی مدّت2022ء بتائی گئی، مگر بعد میں مارچ2023 ء اور جون2024 کی نئی تاریخوں پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔
گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تاریخی پرواز کے مسافروں کا وفاقی وزیرِ دفاع و ہوا بازی، خواجہ محمّد آصف، گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل اور وزیرِ اعلیٰ سرفراز احمد بگٹی نےاستقبال کیا۔ اِس موقعے پر منعقدہ تقریب سے خطاب میں خواجہ محمّد آصف نے کہا کہ ’’آج ہم سب انتہائی فخر اور شُکر گزاری کے ساتھ یہاں جمع ہو کر اس عظیم الشّان کام یابی کا جشن منا رہے ہیں۔ سی پیک میں شمولیت کے بعد گوادر ترقّی کی راہ پر گام زن ہے، تو ہمیں اس ضمن میں چینی حکومت کا شُکریہ ادا کرنا چاہیے۔
آج نیو گوادر ہوائی اڈّا بلوچستان اور پورے مُلک کو فائدہ دینے کے لیے تیار ہے۔یہ ہوائی اڈّا بلوچستان کے لیے نئے دَور کی خوش حالی کا نشان ہے اور یہ نیا انفرا اسٹرکچر، تجارت و سیّاحت کے فروغ میں بہت مدد فراہم کرے گا، نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی، تو مقامی کاروبار ترقّی کرے گا۔ اِس جدید ہوائی اڈّے سے یہاں کے رہائشیوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا، تو نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سرمایہ کاروں کو بھی راغب کرے گا، جس سے اقتصادی سرگرمیوں اور ثقافتی تبادلے کو فروغ ملے گا۔‘‘
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ’’ہمیں مستقبل کی طرف خوش دلی اور عزم کے ساتھ دیکھنا چاہیے، نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ ایک اختتام نہیں، بلکہ آغاز ہے۔ یہ عظیم کام یابیوں کی بنیاد، مُلکی صلاحیتوں کا نشان ہے۔‘‘وزیرِ اعظم، محمّد شہباز شریف نے اپنے پیغام میں نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پروازوں کا سلسلہ شروع ہونے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’آج اللہ کے فضل و کرم سے گوادر کو وسطی و مشرقی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ و خلیجی ممالک کے درمیان ایک اہم رابطہ بنانے کے لیے ایک اور سنگِ میل عبور کر لیا گیا۔
گوادر ایئرپورٹ کا فعال ہونا نہ صرف پاکستان، بلکہ پورے خطّے میں مواصلاتی روابط کے فروغ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ہم چینی صدر، شی جن پنگ اور میاں محمّد نواز شریف کے سی پیک کے ذریعے پاکستان اور خطّے کی ترقّی کے مشترکہ عزم کی تکمیل کے مزید قریب پہنچ گئے ہیں۔واضح رہے، سی پیک کی شروعات میاں محمدّ نواز شریف کے دَور سے ہوئی اور اس کے اہم سنگِ میل بھی اُن کی قیادت میں عبور ہو رہے ہیں۔
یہ بین الاقوامی سہولتوں سے آراستہ گوادر ایئرپورٹ، پاک، چین دوستی کی اعلیٰ مثال ہے۔ چین، پاکستان کا وہ مثالی بھائی ہے، جس نے ہمیشہ پاکستان کی تعمیر و ترقّی میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘ نیز، اُنہوں نے وزیرِ دفاع و ہوابازی خواجہ آصف، وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی کی قیادت میں حکومتِ بلوچستان، سیکیورٹی پر مامور افسران، اہل کاروں اور عسکری قیادت کو ایئر پورٹ کی تعمیر کے لیے دن رات اَن تھک محنت پر خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔
4300 ایکڑ رقبے پر پھیلا نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، پاکستان کا سب سے بڑا ہوائی اڈّا ہے، جس پر دنیا کے بڑے سے بڑے مسافر بردار طیارے بھی اُتر سکتے ہیں۔ گوادر شہر سے مشرق میں تقریباً26 کلومیٹر دُوری پر واقع یہ پاکستان کا دوسرا گرین فیلڈ، یعنی ایسا ایئرپورٹ ہے، جسے وفاقی حکومت نے چین اور اومان کی حکومت کی امداد سے نئے سرے سے تعمیر کیا۔
منصوبے پر مجموعی طور پر60 ارب20 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات آئے، جن میں سے نصف سے زائد رقم چینی حکومت نے فراہم کی۔ ہوائی اڈّے کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کے حکومتی ادارے، چائنا کمیونی کیشن کنسٹرکشن کمپنی کے ذیلی ادارے چائنا ایئرپورٹ کنسٹرکشن گروپ کو دیا گیا تھا، جس کے پراجیکٹ کوآرڈی نیٹر، لیاؤ جیان ژن کے مطابق،’’یہ منصوبہ چینی حکومت اور عوام کی طرف سے گوادر اور پاکستان کے لیے ایک تحفہ ہے اور یہ پاک، چین دوستی کی یادگار کے طور پر قائم رہے گا۔
گوادر ایئرپورٹ اسٹیٹ آف دی آرٹ منصوبہ ہے، جسے بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کے دَوران کافی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔‘‘ اُنہوں نے بتایا کہ’’ گوادر میں بہت تیز ہوائیں چلتی ہیں۔یہاں دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوا ریکارڈ کی گئی۔ ہم نے ڈیزائننگ کے مرحلے میں یہاں کی آب و ہوا، زمین کی ساخت اور باقی امور بھی مدّنظر رکھے۔
تیز ہوا، گرمی اور موسمیاتی سختیوں کے علاوہ بجلی، پانی، تعمیراتی مواد اور ہنرمند افرادی قوّت کی کمی جیسی مشکلات پر قابو پا کر اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا۔‘‘پاکستان سِول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکّام نے گوادر ایئرپورٹ سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ42فٹ اونچی اور 14ہزار مربع میٹر پر مشتمل جدید سہولتوں سے آراستہ خُوب صُورت اور اسمارٹ ٹرمینل بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے، جو ابتدائی طور پر سالانہ چار لاکھ سے زائد مسافروں کو ہینڈل کرسکے گی، جب کہ اس کے کارگو ٹرمینل کی صلاحیت سالانہ30ہزار ٹن ہے۔
مسافروں کو ٹرمینل سے پرواز تک جانے کے لیے برج کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ رَن وے کی لمبائی3658میٹر اور چوڑائی75میٹر ہے، جسے23میٹر چوڑے ٹیکسی وے سے جوڑا گیا ہے۔ رَن وے پر چار سو سے پانچ سو مسافروں کی گنجائش رکھنے والے ایئر بیس 380، بوئنگ 747 جیسے دنیا کے بڑے مسافر بردار طیارے بھی لینڈ اور ٹیک آف کر سکیں گے۔نیز، یہاں بیک وقت پانچ طیارے پارک ہو سکیں گے۔
ایئر پورٹ پر ہائی ٹیک نیوی گیشنل سسٹم، جدید ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور، کسی حادثے کی صُورت میں ریسکیو، فیول اسٹوریج، ڈی سیلینیشن پلانٹ، گرڈ اسٹیشن، واٹر سپلائی سسٹم، پی ٹی سی ایل فائبر آپٹک سسٹم اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے متعلقہ عمارتیں اور بنیادی ڈھانچا تعمیر کیا گیا ہے، جب کہ ایئرپورٹ کو چاروں اطراف باڑ لگا کر محفوظ بھی بنایا گیا ہے۔ مسافروں اور سامان کے لیے جدید حفاظتی خصوصیات کا حامل اسکیننگ نظام بھی نصب کیا گیا ہے۔
کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی سے12میگاواٹ کا معاہدہ کر کے ایئرپورٹ کو24 گھنٹے بجلی کی فراہمی کے لیے تین الگ الگ ٹرانسمیشن لائنز سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ،12 ارب روپے سے زائد لاگت سے ایئرپورٹ کے احاطے میں ایئرپورٹ سیکیوریٹی فورس کے لیے کیمپ، سِول ایوی ایشن کے عملے اور افسران کے لیے رہائش، کمیونٹی اسکول، مسجد، میس اور دیگر سہولتوں سے آراستہ الگ کمپلیکس بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔
اگلے مرحلے میں ایسٹ بے ایکسپریس وے کو توسیع دے کر گوادر پورٹ کو نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جوڑا جائے گا۔ یہ نئی سڑک ساڑھے دس کلومیٹر طویل ہو گی۔یاد رہے، ایئر پورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ٹیسٹنگ اور کمیشننگ کئی ماہ قبل مکمل کر لی گئی تھی ۔ایئرپورٹ عملے کو چین میں تیکنیکی تربیت دی گئی تاکہ ایئرپورٹ کو آزادانہ طور پر چلایا جا سکے۔
معاشی تجزیہ نگار نئے ہوائی اڈّے کو گوادر پورٹ اور اس کے فِری زون کی ترقّی کے لیے اہم سمجھتے ہیں، جب کہ یہ بھی توقّع کر رہے ہیں کہ اس سے مقامی شہریوں کو آمدروفت میں آسانی ہوگی۔ مُلکی اور غیر مُلکی سرمایہ کار بھی کم مسافت اور تیز رفتار سفر کی سہولتیں میسّر آنے سے گوادر کی جانب راغب ہوں گے۔
یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی بحالی اور ترقّی کے لیے ایک جامع فریم ورک میں تبدیل ہو چُکا ہے۔ یہ انفرااسٹرکچر، توانائی، تجارت اور علاقائی استحکام پر مثبت اثرات مرتّب کر رہا ہے۔ سی پیک کا آغاز46ارب ڈالرز کے منصوبوں کے ساتھ ہوا، جو بعد میں62ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا۔ ابتدائی فیز میں پاکستان کے توانائی بحران کے خاتمے اور ٹرانسپورٹ کے نظام کی بہتری کو ترجیح دی گئی، جس کے تحت ساہی وال کول پاور پلانٹ اور پورٹ قاسم کول پاور پراجیکٹ جیسے3000میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے والے منصوبے شروع کیے گئے، شاہ راہِ قراقرم کی جدید کاری کی گئی اور لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کا آغاز کیا گیا۔
توسیعی فیز میں صنعتی تعاون اور سماجی شعبے کی ترقّی پر توجّہ دی گئی۔ اِس دوران گوادر فِری زون کا آغاز ہوا، خصوصی اقتصادی زونز، رشکئی اور علّامہ اقبال انڈسٹریل سٹی کا قیام عمل میں آیا اور گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تکمیل ہوئی۔آئندہ مرحلے میں پائے دار ترقّی، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی پر توجّہ مرکوز ہے۔ اِس مرحلے کے مجوّزہ منصوبوں میں ایم ایل وَن ریلوے منصوبے کی بہتری، گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کی سہولتوں میں توسیع اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔
سی پیک کے سبب پاکستان کے سڑک اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک میں نمایاں بہتری آئی ہے۔1500کلومیٹر سے زائد شاہ راہوں کی تعمیر نے، جیسے کہ’’ملتان-سکھر موٹروے‘‘ اور ہزارہ موٹروے وغیرہ نے سفر کا وقت بہت کم کر دیا ہے۔
واضح رہے، گوادر بندرگاہ کو جدید ترین گہرے پانی کی بندرگاہ میں تبدیل کیا گیا ہے، جو بڑی مقدار میں کارگو ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان کے توانائی گرڈ میں5320 میگاواٹ بجلی شامل کی گئی ہے، جس سے بجلی کی قلّت میں نمایاں کمی آئی۔ بڑے منصوبوں میں ساہی وال کول پاور پلانٹ، پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ اور قائدِ اعظم سولر پارک شامل ہیں۔ نیز، سی پیک نے کئی اقتصادی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا ہے، جن سے پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں تقریباً1.5 فی صد اضافہ ہوا۔
خصوصی اقتصادی زونز نے غیر مُلکی سرمایہ کاری کو راغب کیا، روزگار کے مواقع پیدا کیے اور صنعتی پیداوار بڑھائی۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تعلیم، صحت اور ٹیکنالوجی پر توجّہ دی گئی ہے، تو پاکستانی طلبہ کو چینی یونی ورسٹیز میں اسکالرشپس کی فراہمی اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کے قیام سے انسانی وسائل کی ترقّی میں بہتری آئی ہے۔
گوادر ڈی سیلینیشن پلانٹ جیسے منصوبے، مقامی پانی اور وسائل کے مسائل کے حل کے لیے کارگر ثابت ہوں گے۔ توقّع ہے کہ2030ء تک گوادر بندرگاہ کے ذریعے برآمدات10ارب ڈالرز سالانہ تک پہنچ جائیں گی۔ تاہم، سی پیک کے مستقبل کی کام یابی کا انحصار رفتار کو برقرار رکھنے، گورنینس کے مسائل کے حل اور تمام صوبوں میں مساوی ترقّی کو یقینی بنانے پر ہے۔
بلاشبہ، امن و امان کے سنگین چیلنجز کے باوجود اس کے طویل مدّتی فوائد بے پناہ ہیں۔ سی پیک کے دوسرے عشرے میں داخل ہونے کے ساتھ، حکمتِ عملی پر مبنی منصوبہ بندی اور شراکت داروں کے تعاون سے اس کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ برھانے میں مدد ملے گی اور یہ امر جو پورے خطّے کی ترقّی کا ضامن ہے۔