(مقبول بٹ کے یوم شہادت پر خصوصی تحریر )
آج سے 41برس قبل دلی کی تہاڑ جیل میں جس مرد حر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا اسکا نعرہ ’’یہ وطن ہمارا ہے، اسکی حفاظت ہم کرینگے، اس پر حکومت ہم کرینگے‘‘ آج سارے کشمیر میں ایک نئے انقلاب کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ منقسم ریاست جموں کشمیر کی ترہگام وادی میں غریب کاشتکار غلام قادر بٹ کے ہاں جنم لینے والا مقبول بٹ بکھرے جموں کشمیر کی یکجہتی اور حریت کا باعث بنے گا یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ یہ کہانی تب کی ہے جب سارے مصلحتوں اور مفادات کا شکار ہوکر سری نگر اور مظفر آباد کے لولے لنگڑے اقتدار کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے یہ بات بھلا دی گئی تھی کہ ڈیڑھ سو سال قبل سر کٹوا کر اور زندہ کھالیں کھنچوا کر شمس خان سدھن، سبز علی خان، ملی خان، راجولی خان اور انکے ساتھیوں نے کس مقدس مشن کا آغاز کیا تھا۔ کیپٹن حسین خان، کرنل حسن مرزا، کیپٹن بابر، خان آف منگ، میر ہدایت کا سفر کیا تھا؟ انہی سوچوں نے مقبول بٹ کو ایک انوکھی اور منفرد راہ کا مسافر بنا دیا۔ اسکی حیثیت موتیوں کی مالا میں گوہر کی سی ٹھہری۔ استور کے قائدِ تحریک امان صاحب، میرپور کا فرزند عبدالخالق انصاری پونچھ کا وقار سردار رشیدحسرت باغ کی آبرو سردار اکرم مظفر آباد کی شان میر ہدایت مہاجرین کی جانیں میجر (ر) امان، میر عبدالمنان ڈاکٹر فاروق حیدر، ڈاکٹر غلام احمد جراح میر عبدالقیوم، جی ایم میر، اکرام جسوال جیسے کئی ایک تھے سب کے جذبے جواں سب کی نیتیں کھری لیکن وسائل کی کمی رابطوں کا فقدان منزل کے حصول میں رکاوٹ تھا۔ مقبول بٹ اس کارواں کا امام بنا اس نے خود میدان کا رزار میں اترنے کا فیصلہ کیا اس راہ میں گلگت کا سپوت اورنگزیب قربان کر کے جدوجہد کی ابتدا کی۔ اشرف قریشی اور ہاشم قریشی جیسے دیوانوں نے مقبول بٹ کے حکم پر بھارتی طیارہ گنگا ہائی جیک کیا پہلی بار دنیا کشمیر سے آشنا ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے کشمیر کا وزیراعظم بننے کی پیشکش کی جسے اس نے ٹھکرا دیا۔ مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ چلائے کہ یہ کارروائی انکے گروہ المجاہد سے منسوب کر دو۔ مقبول بٹ انکاری ہو گئے۔ مقبول بٹ بھارتی سورماؤں کے ہاتھوں گرفتار ہوا لیکن جیل توڑ کر بھاگ نکلا۔ ننگے پاؤں برف پر چل کر جب آزاد کشمیر پہنچا تو بھارت کا جاسوس کہہ کر زندان میں ڈال دیا گیا یہاں کے قید خانوں میں اس سے کیا سلوک ہوا قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ وہ یہی کہتا رہا میں پاکستان یا ہند کا ایجنٹ نہیں اپنے وطن کا سپاہی ہوں کہیں سابق وزیراعلیٰ شیخ ثانی فاروق عبداللہ دہلی ایما پر سری نگر کی کٹھ پتلی اسمبلی میں قائد ایوان بنے رہے تو سید علی گیلانی اسی کٹھ پتلی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن کر جمہوری قدریں مضبوط کرتے رہے۔
بہرکیف11فروری کو مقبول بٹ پھانسی چڑھا دیا گیا پھانسی گھاٹ پر بھی وہ ایسے ہی مسکراتا اور للکارتا رہا جیسے کل صدام للکارا تھا، اس نے کہا مجھے یقین کامل ہے کہ یہ منحوس خونیں لکیر ضرور مٹے گی اور میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا۔ مقبول بٹ کی پھانسی کے چار سال بعد اسکی راہوں پر ایک نیا سفر شروع ہوا اسکی جوانی کے دوست امان صاحب اس نئی جنگ میں قائد تحریک ٹھہرے۔ وہی مقبول بٹ کا فلسفہ جنگ، وہی نعرہ، وہی عزائم، غلام نبی بٹ، اشفاق مجید وانی حمید شیخ یٰسین ملک جاوید میر اعجاز ڈار بلال صدیقی ڈاکٹر عبدالاحد گرو، ارشد کول، جاوید جہانگیر، ہمایوں آزاد، عبدالقادر راتھر، ایس ایم افضل ملک انور عبدالاحد، ناظم الدین بابر، امام دین، رشید حسرت، ڈاکٹر فاروق حیدر، راجہ مظفر، نام الگ الگ چہرے مختلف لیکن کردار ایک، فکر ایک، عزم ایک، دیکھتے ہی دیکھتے سہہ رنگ علم تلے سارا کشمیر مقبول بٹ کا روپ دھار گیا۔ محمد مقبول بٹ کی شجاعت و قربانی نے اسے دائمی حیات دی۔ وہ سوچ بن کر قوم کے اجتماعی شعور کی آبیاری کر رہا ہے۔ مقبول بٹ کی طرح تاج ٹھکرا کر تختہ دار پر لٹک جانا منفرد بات ہے۔ عہدوں کو اس نے اہمیت نہ دی۔ کیونکہ وہ اپنے لئے نہیں قوم کیلئے جینا چاہتا تھا۔ آج 41سال گزرنے کے بعد اسکا چہرہ میرے سامنے ہے اسکے دائیں شہدائے اول اور مجاہدین اول سردار شمس خان سدھن، سبز علی خان، ملی خان، راجولی خان اور انکے ساتھی ہیں بائیں طرف گیارہ فروری 90،92،93 کے شہداء خاص کر 5اگست سے جبراً نافذ کرفیو کے دوران 6ماہ کے شہدا اور اسکے پیچھے اندازاً پانچ لاکھ شہداء کا ایک سمندر ہے۔ مقبول بٹ کا اپنے نام لیواؤں سے سوال ہے کہ میں تمہیں کہہ آیا تھا کہ اس جنگ کو ہر محلے ہر گلی، ہر مکتب، ہر خطے میں پھیلا دو لیکن یہ کیا تم سری نگر اور آزاد کشمیر تک محدود ہو؟ مقبول بٹ نے کہا تھا کہ ”میں گہرا مذہبی آدمی نہیں لیکن یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب انسان کی زندگی میں ”بنیادی“ کردار ادا کرتا ہے“ لیکن تم میں اکثریت لادین بن چکی ہے، میرے گیت گانے والو تم نے41سال میں کیا کیا؟ کیا تم عراق اور شام کا منظر نہیں دیکھتے، افغانستان کا میدان نہیں دیکھا شیعہ سنی سب مسلمان کہلانے کے باوجود چن چن کر مارے گئے؟ تقسیم کشمیر کا شور مچانے والو۔ کشمیر تو 47 ء سے تقسیم ہے اس کی یکجہتی کیلئے تم نے کیا کیا؟ میرے چاہنے والو کبھی گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ تم کتنے منظم ہو؟ مقبول بٹ تیرے نام سے آج تحریک آزادی کشمیر کی پہچان ہے۔ مگر تیری اولاد، اس تحریک کی قیادت کرنے سے انکاری ہے۔ تیرا لخت جگر برطانیہ میں دیہاڑی دار مزدور ہے۔ مقبول بٹ توُ ایک آزاد ملک اور خود مختار حکومت کی مانگ کرنیوالا سیدھا سادہ نیشنلسٹ تھا، جیسے چےگویرا، فیڈل کاسترو، نیلسن منڈیلا، عمرمختار، ملاعمر، امام خمینی، کرنل قذافی تھے، مقبول بٹ تیری راہ سے ہٹنے والے شرمندہ ہیں۔