• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شبِ برأت‘‘ توبہ کا دروازہ اور گناہوں کا کفارہ

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلامی دنوں میں سے چند دن یا راتوں کو اسی لئے فضیلت و اہمیت حاصل ہے کہ یہ دن اور راتیں دوسرے دنوں اور راتوں کے مقابلے میں ایک خاص نمایاں اور منفرد اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں۔ یہ دن اور راتیں ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے مقصد تخلیق اور اس زمین پر اپنے رب کے نائب یا خلیفہ ہونے کا احساس دلاتے ہوئے ہمیں اپنے اس منصب خلافتِ الٰہیہ کے مطابق اسلامی کردار اداکرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

شبِ برأت بھی ایسے ہی خاص دنوں اور راتوں کے قبیل سے تعلق رکھنے والی راتوں میں سے ایک اہم رات ہے جس میں احساسِ زیاں کو اجاگر کرنا مقصد ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب کو شبِ برأت کہا جاتا ہے۔ اس رات کو مسلمانوں میں فضیلت و اہمیت کا باعث اور مبارک تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۂ دخان کی ابتدائی پانچ آیات کے متعلق بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ان آیات میں ’’مبارک رات‘‘ سے مراد یہی شعبان کی پندرہویں شب ہے۔ 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’قسم ہے اس روشن کتاب کی کہ ہم نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا، بے شک، ہمیں ڈرانا مقصود تھا۔ اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ ہمارے خاص حکم سے ‘‘۔ (سورۂ دخان :۵۶) بعض مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ سورۂ دخان کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں جس ’’مبارک رات‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ شعبان کی پندرہویں شب ہی ہے‘‘۔

احادیث نبوی ﷺ میں بھی اس رات کی فضیلت میں روایات موجود ہیں۔ سب سے مشہور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک رات بسترِ استراحت پر نہ پایا تو میں آپ ﷺ کی جستجو میں نکلی، آپ ﷺ کو بقیع (جنت البقیع) میں اس طرح پایا کہ آپ کا سر مبارک آسمان کی طرح اٹھا ہوا تھا۔ تب آپﷺ (نے مجھے دیکھ کر ) فرمایا کہ (اے عائشہ ؓ) کیا تمہیں اس بات کا خدشہ ہوا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ تم پر ظلم کریں گے۔

میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے یہ سوچا کہ شاید آپ ازواج مطہرات ؓ میں سے کسی اور زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں شب اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزولِ اجلال فرماتا ہے۔ اور قبیلہ’’ بنی کلب‘‘ کی بھیڑ ، بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں اپنے بندوں کو بخشتا ہے۔ (جامع ترمذی)

اس حدیثِ مبارکہ میں دو الفاظ بہت اہم اور شرح طلب ہیں، ایک تو یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے‘‘۔ ایسے الفاظ اکثران احادیث میں وارد ہوئے ہیں جو رات کے آخری حصے سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر نزول اجلال فرمانا کیا ہے، اس کی حقیقت تو اللہ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن ہمارے فہم و عقل اور سمجھنے کے لئے اس استعارے کی توجیہ یہ ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے بندوں کے قریب سے قریب بہت ہی قریب آجاتا ہے اور اپنے بندوں کو مغفرت کے لئے پکارتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت، رزق، صحت چاہے کہ میں اسے بخش دوں، رزق دوں، صحت دوں، بس بندے کے لئے اس وقت ہاتھ اٹھانے کی دیر ہوتی ہے کہ بندہ اپنا ہاتھ بارگاہِ الہٰی میں بلند کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔

دوسری تشبیہ ’’بنو کلب‘‘ کی بھیڑ، بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت سے ہے۔ ’’ بنو کلب‘‘ عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا جن کا پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا تھا۔ لہٰذا یہ بہت ہی کثرت سے بھیڑ بکریاں پالتے اور اُن کا کاروبار کرتے۔ 

اب ذرا غور کریں ایک دو نہیں، دس بیس، سو دو سو، ہزار نہیں، بلکہ پورے قبیلے کے ہر گھر اور ہر گھر کے ہر فرد کے پاس ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں تھیں، ان کی تعداد کا اندازہ نہیں پھر ایک ایک بھیڑ یا بکری کے جسم پر موجود بال ان گنت شمار سے ماوراء اور بھیڑ بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ مغفرت کرنے کے دو مطلب ذکر کئے گئے ہیں۔ 

پہلا مطلب یہ کہ اس سے گناہ گار مراد ہیں کہ اس قدر کثیر تعداد میں گناہ کاروں کی مغفرت ہوتی ہے، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے گناہ گاروں کے گناہ مراد ہیں کہ اگر کسی بندے کے گناہ بنو کلب کی تمام بھیڑ بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ اس شب میں اپنے فضل و کرم اورشانِ رحمت و مغفرت سے انہیں معاف فرما دیتا ہے۔

شب برأت کی فضیلت میں ایک اور حدیث حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’یقینا ًاللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں سوائے مشرک اور کینہ پرور کےسب اہل ایمان کو بخش دیتا ہے۔ (ابنِ ماجہ)

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو (یعنی نماز نفل ادا کرو) اوردن کو روزہ رکھو کیونکہ اس رات میں اللہ کی تجلی غروبِ آفتاب ہونے کے ساتھ ہی آسمان دنیا پر ظاہر ہوتی ہے اور پھر اللہ پکارتا ہے کہ ہے کوئی کہ مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں، ہے کوئی حاجت یا ضرورت والا کہ میں اس کی حاجت روائی کروں؟ صبح صادق فجر تک اللہ یہی فرماتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تمام شعبان کے روزے رکھ کر اسے رمضان سے ملا دیتے تھے اور آپ کسی بھی مہینے کے تمام روزے نہیں رکھتے تھے، سوائے شعبان کے، میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ شعبان کا مہینہ آپ کو بہت پسند ہے ؟

آپ اس کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! اے عائشہؓ جو بھی (انسان) پورے سال میں فوت ہوتا ہے، اس کی اجل (موت ) شعبان میں لکھ دی جاتی ہے تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میری موت لکھی جائے تو روزے دار ہوں اور اللہ کی عبادت اور عمل صالح میں مصروف ہوں۔ (تفسیر درالمنثور)

شب برأت سے متعلق قرآن و حدیث کی اِن تعلیمات و احکام کا خلاصہ کچھ یوں ہو گا کہ شب برأت میں رات کو عبادت کی جائے، رات کے بعد دن کا روزہ رکھا جائے، اس رات کو غروب آفتاب سے صبح صادق تک اللہ کی تجلیات کا آسمان دنیا پر نزول ہوتا ہے، یعنی اللہ بندوں کے بہت قریب آجاتا ہے۔ 

بندوں کو بخشش، رزق، مصیبت سے نجات ، اور عطا کی آواز دیتا ہے۔ حاجت روائی کی ذمہ داری لیتا ہے۔ مشرک اور کینہ پرور شخص کے علاوہ سب گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔ شبِ برأت میں رسول اللہ ﷺ بقیع کے قبرستان میں تشریف لے گئے، اسی رات پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

ان تعلیمات کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ شبِ برأت بھٹکے ہوئے، سرکش و گناہ گار لوگوں کے لئے ایک دستک ہے جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گور کھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔

شبِ برأت ہمیں محاسبہ نفس، توبہ اور تجدید عہد کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ ہم توبہ کے ذریعے اپنی دنیا اور آخرت کے لئے فلاح و کامرانی کا سامان تیار کریں۔ یہ شب آخرت سنوارنے کے لئے ایک فکر کانام ہے۔ 

شبِ برأت رمضان سے پہلے اللہ اور رسول ﷺ سے دوری ختم کر کے قربتِ خداوندی کا ایک موقع ہے، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت و اطاعت کی طرف ایک دعوت ہے جسے قبول کر کے مومن اپنے رمضان کو آسان بنا سکتا ہے۔